صدرِ مملکت ڈاکتر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن کا استعفیٰ منظور کرلیا،

صدرِ مملکت نے جسٹس اعجاز الاحسن کا استعفیٰ وزیراعظم کی ایڈوائس پر منظور کیا،گزشتہ روز سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی استعفیٰ دے دیا تھا،جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت کو ارسال کیا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے اکتوبر میں چیف جسٹس آف پاکستان بننا تھا، جسٹس اعجازالاحسن نے آج سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں بھی شرکت نہیں کی تھی،جسٹس اعجاز الا حسن کا استعفیٰ کل ہی ایوان صدر کو موصول ہو گیا تھا

سپریم کورٹ کے جج کے طور پر اپنے فرائض منصبی انجام دینے پر فخر ہے،اعجاز الاحسن کے استعفیٰ کی کاپی سامنے آ گئی
جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے استعفیٰ میں کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں لاہور ہائیکورٹ کا جج اور پھر لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس رہا، مجھے سپریم کورٹ کے جج کے طور پر اپنے فرائض منصبی انجام دینے پر فخر ہے،میں اب مزید بطور سپریم کورٹ کے جج کے کام جاری نہیں رکھنا چاہتا، میں اعجازالاحسن سپریم کورٹ کے جج کے طور پر مستعفی ہونے کا اعلان کرتا ہوں، آرٹیکل 206 کی شق 1 کے تحت فوری مستعفی ہو رہا ہوں،
آرٹیکل 206 کی شق 1 کے تحت فوری مستعفی ہو رہا ہوں،

جسٹس اعجاز الاحسن کے استعفے کیساتھ ہی سپریم کورٹ میں اہم تبدیلیاں ،جسٹس منصور علی شاہ آئندہ چیف جسٹس ہونگے، جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل میں بھی اہم تبدیلیاں ،جسٹس منصور علی شاہ سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ بن گئے،جسٹس یحییٰ آفریدی جوڈیشل کمیشن کے ممبر بن گئے،اعجاز الاحسن کے استعفیٰ کے بعد جسٹس منصور علی شاہ کی چیف جسٹس کی مدت 2 سال اور تین ماہ سے بڑھ کر تقریبا 3 سال 1 مہینہ ہوگئی ہے اب اعجاز الآحسن کے استعفے کے بعد جسٹس منصور علی شاہ 25 اکتوبر 2024 سے لیکر 27 نومبر 2027 تک چیف جسٹس رہیں گے

اعجاز الاحسن کے خلاف بھی ریفرنس دائر ہونے والا تھا،حامد میر کا انکشاف
جسٹس اعجاز الاحسن کے استعفیٰ پر سینئر صحافی و اینکر حامد میر نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اعجاز الاحسن کے استعفے کی وجہ دو ریفرنس جو انکے خلاف تیار ہوچکے ہیں ایک آج کل میں دائر ہونے ولا تھا جس میں 200 صفحات کے سپورٹنگ ڈاکومنٹس لگ چکے ہیں. اور دوسرا ریڈی ہو رہا ہے، فیصلہ لاسٹ ویک ہم خیال ججز کی میٹنگ اسلام آباد میں کیا گیا.اعجازالاحسن نے اس راہ فرار حاصل کی.

رواں برس 9 جنوری کو جسٹس اعجازالاحسن نے جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف کارروائی کے معاملہ پر خط لکھا تھا۔ خط میں تحریر کیا کہ کونسل کی جانب سے کارروائی روایات کے خلاف غیر ضروری جلد بازی میں کی جا رہی ہے، کونسل کو اپنے آئینی اختیارات نہایت احتیاط کے ساتھ استعمال کرنے چاہئیں، کونسل ممبران کی جانب سے اختلاف کی صورت میں جج کے خلاف کارروائی مکمل غور و فکر کے بعد کرنی چاہئے۔جسٹس اعجازالاحسن نے مزید لکھا کہ جسٹس مظاہر نقوی کے بیٹے زیر کفالت نہیں جن کی جائیداد بھی الزامات میں شامل ہے، قانون کی نظر میں لگائے گئے الزامات برقرار نہیں رہ سکتے، 22 نومبر 2023ء کو میں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان کے ساتھ اس کارروائی میں بیٹھنے سے انکار کیا تھا جس میں جسٹس سید مظاہر نقوی کو کونسل میں دائر کی گئی شکایات پر دوسرا شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تھا۔خط میں تحریر کیا گیا جسٹس مظاہر نقوی کے معاملے میں نہ تو غورو فکر کیا گیا اور نہ ہی اس کی اجازت دی گئی، کونسل کے کارروائی چلانے کے انداز سے مکمل اختلاف کرتا ہوں، جسٹس مظاہر نقوی پر لگائے گئے الزامات بغیر مواد اور میرٹ کے برخلاف ہیں، جسٹس مظاہر نقوی پر لگائے گئے زیادہ الزامات جائیداد یا انکی ٹرانزیکشن کے حوالے سے ہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے خط میں تحریر کیا کہ میں نے واضح کیا تھا کہ میں اس انکار کی وجوہات بعد میں دوں گا، میں یہ حق رکھتا ہوں کہ کسی بھی وقت شوکاز نوٹس جاری کرنے کے حوالے سے اپنی وجوہات دے سکوں.

گزشتہ ماہ دسمبر میں سپریم کورٹ میں بینچز کی تشکیل پر جسٹس اعجاز الاحسن نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھ کر تحفظات کا اظہار کیا تھاجس پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے جسٹس اعجاز الاحسن کو جوابی خط لکھا تھا،چیف جسٹس نے جوابی خط میں کہا کہ میرے دروازے اپنے تمام ساتھیوں کے لیے ہمیشہ کھلے ہیں، میں انٹر کام اور فون پر بھی ہمیشہ دستیاب ہوں، آپ نے اپنے تحفظات کے لیے نہ مجھے کال کی، نہ ملاقات کے لیے آئے، آپ کا خط ملنے پر فوری آپ کے انٹر کام پر رابطے کی کوشش کی لیکن جواب نہ ملامیں نے اپنے اسٹاف کو آپ کے ساتھ رابطے کا کہا، اسٹاف نے بتایا کہ آپ جمعہ دوپہر لاہور چلے گئے ہیں، ہمیں 6 دن کام کرنے کی تنخواہ ملتی ہے نہ کہ ساڑھے 4 دن کی۔ ججز کمیٹی کے 3 اجلاس آپ کی عدم موجودگی کی وجہ سے ملتوی ہوئے، ججز روسٹرز پر آپ کے اعتراضات ہیں تو نیا اجلاس بلا کر نئے بینچز کی تشکیل پر غور ہو سکتا ہے۔

گزشتہ روز مظاہر علی اکبر نقوی نے استعفی دیا تھا ,صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا استعفیٰ منظور کر لیا, مظاہر نقوی پر الزام ہے کہ انہوں نے بطور سپریم کورٹ جج اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنی آمدن سے زیادہ مہنگی لاہور میں جائیدادیں خریدی ہیں  سپریم جوڈیشل کونسل میں انکے خلاف ریفرنس زیر سماعت ہے، آج بھی سپریم جوڈیشل کونسل نے مظاہر علی اکبر نقوی کو نوٹس جاری کئے ہیں.

میاں داود ایڈوکیٹ نے بھی سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی تھی،درخواست میں استدعا کی گئی کہ جسٹس اعجاز الاحسن کی جگہ دوسرے سینئر جج کو سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ بنایا جائے،درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ جسٹس اعجاز الاحسن کو جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف شکایت سننے والی کونسل سے الگ ہونا چاہیے،جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف کرپشن اور مس کنڈکٹ کا ریفرنس جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ہے، آڈیو لیکس مقدمات کی فکسنگ اور غلام محمود ڈوگر کیس سے متعلق ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن اس بنچ کا حصہ تھے جس نے غلام محمود ڈوگر کیس سنا،قانونی اور اصولی طور پر غلام محمود ڈوگر کا مقدمہ سننے والا کوئی جج جوڈیشل کونسل کا ممبر نہیں رہ سکتا، جسٹس اعجاز الاحسن کا سپریم جوڈیشل کونسل میں ممبر رہنا آئین کے آرٹیکل 10 اے اور 9 کیخلاف ہے،جسٹس اعجاز الاحسن کا جوڈیشل کونسل کا حصہ رہنا مفادات کے ٹکراو اور شفافیت کے اصول کیخلاف ہے

Shares: