بریکنگ۔ اینکر عمران ریاض خان کو ایف بی آر نے طلب کر لیا
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے اینکر عمران ریاض خان کو نوٹس بھجوایا ہے اور انہیں 15 مئی سے قبل ایف بی آر آفس میں متعلقہ ریکارڈ سمیت پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے
ایڈیشنل کمشنر کی جانب سے عمران ریاض خان کو بھجوائے گئے نوٹس میں انکی پراپرٹی زرعی زمین سمیت دیگر ریکارڈ طلب کیا گیا ہے نوٹس میں ماڈل ٹاون لاہور کے پتے پر بھجوایا گیا ہے۔ نوٹس انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے تحت بھجوایا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جو انکم ٹیکس جمع کروایا گیا ہے وہ آمدن سے مطابقت نہیں رکھتا انکم ٹیکس کم جمع کروایا گیا ہے۔ سال 2020 میں ایک کروڑ 55 لاکھ 45 ہزار 858 روپے آمدن ظاہر کی گئی ۔ اثاثوں میں پلاٹ نمبر 76 ملت ٹریکٹر امپلاییز سوسائٹی ظاہر کیا گیا جس کی قیمت تین کروڑ 65 لاکھ اور تین کنال کا بتایا گیا تاہم 2021 میں ظاہر کیا کہ پلاٹ نمبر 65 اور 66 یعنی ایک سال بعد کے اثاثہ جات میں دو پلاٹ ظاہر کیے اور دونوں کی قیمت تین کروڑ 25 لاکھ ظاہر کی گئی سال 2020 اور 2021 کے اثاثہ جات میں ان پلاٹ کی قیمتوں کا فرق ہے ایک پلاٹ 2020 میں تین کروڑ کا اور 2021 میں دو پلاٹ اور ان دونوں کی قیمت ایک پلاٹ سے بھی کم ظاہر کی گئی حالانکہ پراپرٹی کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔
نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ فیروز والا میں زرعی زمین 72 کنال ظاہر کی گئی ہے جسکی قیمت 74 لاکھ کہا گیا ہے اسکو بھی چیک کرنے کی ضرورت ہے۔ ذرعی زمین تو ظاہر کر دی گئی لیکن زرعی انکم اثاثہ جات میں ظاہر نہیں کی گئی اسکی بھی نوٹس کے ذریعے وضاحت مانگی گئی ہے
باغی ٹی وی کو ایف بی آر کی جانب سے اینکر عمران ریاض خان کو بھجوائے گئے نوٹس کی کاپی موصول ہوئی ہے۔ اس نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر ان لینڈ ریونیو آپ سے زرعی زمین کے حوالہ سے رابطہ کریں گے امید ہے کہ آپ انکے ساتھ تعاون کریں گے۔ نوٹس میں مزید کہاگیا کہ ٹیکس ریٹرن میں جو اثاثے اور انکم ظاہرکی اس میں فرق ہے اسکی وضاحت ضروری ہے۔ نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ 2021 میں فاریجن انکم 8 کروڑ 87 لاکھ 17 ہزار دو روپے ظاہر کی گئی فاریجن انکم پر بھی پاکستانی قوانین کے مطابق ٹیکس دیا جاتا ہے
ایف بی آر کی جانب سے اینکر عمران خان کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اثاثہ جات اور انکم کے ریکارڈ لے کر دفتر آئیں ادارہ انکا احترام کرتا ہے اور اگر وہ دفتر نہیں آئیں گے یا اپنے اثاثہ جات اور انکم بارے ثبوت شواہد نہیں دیں گے تو پھر ادارہ قانونی کاروائی کا مجاز ہو گا