حکومت نے ’ٹیک اینڈ پے‘ موڈ کے تحت 18 آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ معاہدے کرنے کی تیاری کر لی ہے، جس سے سالانہ 70 سے 100 ارب روپے کی بچت کا امکان ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق، 1994 اور 2002 کی پاور پالیسیوں کے تحت 4267 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے ان 18 آئی پی پیز سے معاہدے کیے جا سکتے ہیں، جن میں 2 ہفتوں کے اندر بجلی کی خریداری کے لیے نیا طریقہ کار اپنانے کی امید ہے۔ذرائع کے مطابق، موجودہ ’ٹیک یا پے‘ موڈ کی بجائے حکومت نے آئی پی پیز کے ساتھ ’ٹیک اینڈ پے‘ موڈ اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں حکومت بجلی کی قیمت صرف اس کی اصل ترسیل کے مطابق ادا کرے گی، اور آئی پی پیز کو صلاحیت کی بنیاد پر ادائیگی نہیں کی جائے گی۔ اس اقدام سے نہ صرف حکومت کو مالی طور پر فائدہ ہوگا، بلکہ بجلی کے شعبے میں شفافیت اور کارکردگی میں بھی بہتری آئے گی۔پاور سیکٹر انڈسٹری اور حکومتی ذرائع کے مطابق، اس بات چیت میں خوش اسلوبی سے پیشرفت ہو رہی ہے اور توقع ہے کہ معاہدے کی تکمیل میں دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔ نئے معاہدوں کے نتیجے میں سالانہ 70 سے 100 ارب روپے کی بچت متوقع ہے، جو کہ معیشت کے لیے ایک اہم پیش رفت ہو گی۔

یہ معاہدے حکومت کی جانب سے پاور سیکٹر میں اصلاحات کے ایک نئے مرحلے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ’ٹیک اینڈ پے‘ موڈ کے تحت معاہدوں کا مقصد نہ صرف مالی بچت حاصل کرنا ہے بلکہ اس کے ذریعے بجلی کی قیمتوں کو بھی زیادہ شفاف اور منصفانہ بنایا جائے گا۔ اس اقدام سے جہاں حکومت کی مالی حالت میں بہتری کی توقع ہے، وہیں صارفین کے لیے بھی ممکنہ طور پر کم قیمتوں کی صورت میں فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، اس تبدیلی سے پاور پروڈیوسرز کو بھی اپنی کارکردگی میں بہتری لانے کی ترغیب ملے گی، جس سے پورے پاور سیکٹر میں استعداد کار میں اضافہ ہوگا۔

Shares: