اسلام آباد: جج ہمایوں دلاور کے خلاف سوشل میڈیا پر مبینہ مہم چلانے کے حوالے سے ڈائریکٹر اینٹی کرپشن خیبر پختونخوا صدیق انجم کے خلاف درج مقدمے میں نئی پیشرفت سامنے آئی ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کی خصوصی عدالت کو کیس کا ٹرائل مزید آگے بڑھانے سے روک دیا ہے۔عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بادی النظر میں ایف آئی اے نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہے اور اس سے متعلق تمام ریکارڈ طلب کیا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے سے تفصیل طلب کی کہ یہ انکوائری کس طرح شروع ہوئی اور اس میں کس طرح کارروائی کی گئی؟

جسٹس بابر ستار نے کیس کا تحریری حکمنامہ جاری کیا ہے جو تین صفحات پر مشتمل ہے۔ حکمنامے میں کہا گیا کہ درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا ہے کہ جج ہمایوں دلاور اور اس کی فیملی کے خلاف مقدمہ درخواست گزار کی ہدایت پر درج کیا گیا تھا۔ وکیل کے مطابق ایف آئی آر اُس مقدمے کی جوابی کارروائی ہے جس میں پیکا 2016 کی سیکشن 20 کی دفعات کالعدم ہو چکی ہیں، اور سائبر اسٹاکنگ کے شواہد بھی موجود نہیں ہیں۔

مزید برآں، حکمنامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قانونی طور پر جرائم کے لیے مجسٹریٹ کی پیشگی اجازت ضروری تھی، جو کہ اس معاملے میں نہیں لی گئی۔ وکیل نے یہ بھی کہا کہ ایف آئی آر قانونی تقاضوں کے برخلاف درج کی گئی ہے اور بغاوت کی سیکشن 505 کے تحت وفاقی یا صوبائی حکومت کی شکایت ضروری ہے، جو یہاں موجود نہیں تھی۔ درخواست گزار پر کسی کو دھمکانے یا نقصان پہنچانے کا الزام نہیں ہے، اور پیکا اور پی پی سی کی دفعات بھی لاگو نہیں ہوتیں۔

وکیل نے ایف آئی اے کے دائرہ اختیار کے تجاوز کو بھی اجاگر کیا اور اس کارروائی کو انتقامی قرار دیا۔عدالت نے کیس کی سماعت 10 فروری تک ملتوی کر دی ہے اور اس کے دوران ایف آئی اے کو تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

پیکا ایکٹ،صحافیوں کی درخواست پر مولانا کا صدر مملکت سے رابطہ،صدر کی یقین دہانی

نامناسب ویڈیو،چاہت فتح علی خان کا متھیرا کیخلاف قانونی کاروائی کا عندیہ

Shares: