پی ٹی آئی احتجاج روکنے کے لیے دائر درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی،
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے درخواست پر سماعت کی، عدالت نے پی ٹی آئی احتجاج کے خلاف درخواست پر وزیر داخلہ ، سیکرٹری داخلہ کو آج ہی طلب کر لیا،درخواست گزار کے وکیل راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے رویے کی وجہ اسلام آباد کو آئے روز ایسی صورتحال کا سامنا ہے ،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اس پر تو پہلے ہی میں نے آرڈر کیا ہوا ہے ، ڈویثرن بنچ کے بعد کیس کو آج ہی سنیں گے ، سماعت میں وقفہ ، ڈویژن بنچ کے بعد دوبارہ سماعت ہوگی
24 نومبر کو بیلاروس کا 65 رکنی وفد آرہا ،میں ذاتی طور پر کینٹنر کے حق میں نہیں ، پچھلی بار ہمارا ایک بندہ شہید ہوگیا ،وزیر داخلہ محسن نقوی
پی ٹی آئی احتجاج رکوانے کے لئے دائر درخواست کی دوبارہ سماعت ہوئی،آئی جی اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچ گئے ، وزیر داخلہ محسن نقوی بھی ہائیکورٹ پہنچ گئے،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم جانتے ہیں پہلے بھی اس طرح کی پٹیشن آئی تھی ، پہلے بھی اس طرح کی صورت حال تھی،عام شہری کا کیا قصور ہے یہ بتائیں ، ایک صوبے کے وزیر اعلی اس احتجاج کی سرپرستی کر رہے ہیں ،میں عمومی طور پر وزرا کو نہیں بلاتا ، تھینک یو منسٹر صاحب ، وزیر داخلہ محسن نقوی نے عدالت میں کہا کہ 24 نومبر کو بیلاروس کا ایک وفدآرہا ہے ،پچھلی بار بھی ہمارا ایک بندہ شہید ہو گیا تھا، پچھلی بار 3 سو سے زائد افغانی بھی حراست میں لیے گئے،24 نومبر کو بیلاروس کا 65 رکنی وفد آرہا ہے،میں ذاتی طور پر کینٹنر کے حق میں نہیں ہوں ، پچھلی بار ہمارا ایک بندہ شہید ہوگیا ہے،
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ایک صوبے کےوزیراعلیٰ اسلام آباد پر لشکر کشی کرتے ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جو صورتحال ہے وزیرداخلہ کیلئے بھی بڑی مشکل صورتحال ہے،کیا حل ہے کہ اسلام آباد کو کنٹینرز سے بند نہ کیا جائے اور کوئی اور حل ہو، وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ بیلاروس کے صدر پاکستان آ رہے ہیں، پورا وفد ان کے ہمراہ ہے،یہ صورتحال ہو گی تو ہمارے ملک کا برا امیج جائے گا،کچھ دیر پہلے کئی لوگ شہید ہو گئے ہیں، ادھر فوکس کریں یا ادھر کریں،ہم نے ایف سی کسی ایک طرف دینی ہے فیصلہ کرنا ہے کہ کس کو دیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ پی ٹی آئی کو انگیج کر لیں؟ وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ تاریخیں وہ رکھی جاتی ہیں جب باہر سے کوئی وفد پاکستان آ رہا ہوتا ہے، میں عدالت کو تفصیلات دے سکتا ہوں کہ کنٹینرز کا کتنا کرایہ دے رہے ہیں، کسی نے احتجاج کرنا ہے تو اپنے علاقوں میں کریں ہم نہیں روکتے، یہ کیا طریقہ ہے کہ احتجاج کیلئے اسلام آباد آ جائیں،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ ہی یہاں صاحب اختیار ہیں، آپ نے ہی فیصلہ کرنا ہے کہ کیا کرنا ہے ؟ اس حوالے سے آرڈر کرکے دوبارہ کیس فکس کریں گے ،میں اس کیس میں آرڈر پاس کروں گا، میں ایک آرڈر کردوں گا،میرا پہلے والا آرڈر موجود ہے ، وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ 24نومبر کو بیلاروس کا ایک وفدپاکستان آرہا ہے،پہلے ایس سی او کانفرنس تھی اس وقت بھی یہ صورتحال تھی،ہم یہ نہیں کہتے کہ احتجاج نہ کریں، جس نے احتجاج کرنا ہے اپنے علاقوں میں کریں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کنٹینرز لگا کر راستے بند کرنا یا انٹرنیٹ بند کرنا کوئی مسئلے کا حل نہیں،وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ میں آپ سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، ہم نے ریڈ زون کا تحفظ کرنا ہے،پتہ نہیں کہا جا رہا ہے کہ یہ جہاد ہے اور قبضہ کرنا ہے،اللہ نہ کرے کہ اس صورتحال میں کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ ہو جائے،ہم نے چیک کیا ، انتظامیہ کو احتجاج کی کوئی درخواست نہیں دی گئی، انہوں نے بس احتجاج کا اعلان کیا ہے اور یہاں دھاوا بولنا ہے، احتجاج سے اسکولز بند اور کاروبارتباہ ہوتے ہیں، عدالت نے کہا کہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھیں،
اسلام آباد ہائیکورٹ،پی ٹی آئی کے احتجاج کیخلاف درخواست پر سماعت مکمل ہو گئی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا جائے گا،میں ایک آرڈر کروں گا، میرا پہلے والا آرڈر موجود ہے،
اسلام آباد پر لشکر کشی کا تاثر ملا،پی ٹی آئی احتجاج رکوانے کی درخواست دائر
قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کا 24 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والے احتجاج کو رکوانے کے لیے درخواست دائر کر دی گئی ہے،تحریک انصاف کے احتجاج کو روکنے اور غیر قانونی قرار دینے کیلئے اسلام آباد کے تاجروں نےاسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا، اسلام آباد میں ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا کہ پُرامن کاروبار اور دیگر فرائض کی ادائیگی ہر شہری کا حق ہے، پی ٹی آئی کا احتجاج بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، احتجاج سے اسلام آباد پر لشکر کشی کا تاثر ملا رہا ہے، بغیر اجازت اس قسم کے احتجاج سے ملک میں لاقانونیت کا تاثر ملتا ہے۔درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ پی ٹی آئی کے غیر قانونی احتجاج کو روکنے کا حکم دیا جائے۔ سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر اور آئی جی کو احتجاج روکنے کا حکم دیا جائے۔ اسلام آباد کے تاجروں نے رضوان عباسی ایڈووکیٹ کے ذریعے درخواست دائر کی
پی ٹی آئی کی جانب سے 24 نومبر کو احتجاج کی کال مناسب نہیں،مولانا فضل الرحمان
احتجاج کی کال،پی ٹی آئی کی گرفتاریوں کی حقیقت فرمائشی گرفتاری نے کی بے نقاب
دہشتگردی کی نئی لہر،ذمہ دار کون؟فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت
ضمانت تو مل گئی پر عمران کی رہائی کا دور دور تک امکان نہیں
عمران خان کی ضمانت،ریلیف عارضی،توشہ خانہ میں سزا کا امکان
پی ٹی آئی احتجاج، بشریٰ بی بی پر اراکین کا عدم اعتماد
بشریٰ بی بی کی ویڈیو”لیک”ہونے کا خطرہ
24 نومبر کےجلسے کی حتمی کامیابی کیلئے خواجہ آصف کا عمران خان اور بشریٰ کو مشورہ
24 نومبر احتجاج:بشریٰ بی بی کی تمام اراکین اسمبلی کو اپنے ساتھ 5 ہزار افراد لے کر آنے کی ہدایت
بشریٰ بی بی کا "جادو” نہ چل سکا، پشاور میں پی ٹی آئی رہنما عہدے سےمستعفی
نوجوانوں سے بڑی توقعات ہیں، بشریٰ بی بی پارٹی میں متحرک
بشریٰ اور علیمہ میں پھر پارٹی پر قبضے کی جنگ،پارٹی رہنما پریشان
واضح رہے کہ تحریک انصاف کے 24 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کی کال دی ہے، جس کی کامیابی کے لیے بشریٰ بی بی بھی متحرک ہیں اور انہوں نے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے ساتھ پارٹی عہدیداروں کو بھی اہم ہدایات دی ہیں، اُدھر حکومت نے بھی تحریک انصاف کا احتجاج روکنے کیلئے اسلام آباد میں ابھی سے اقدامات شروع کردیئے ہیں
پی ٹی آئی کو احتجاجی مارچ سے روکا جائے،پشاور ہائیکورٹ میں درخواست
دوسری جانب پی ٹی آئی کا 24 نومبر کے احتجاج کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں بھی درخواست دائر کر دی گئی،درخواست گزار جلال الدین نے پشاور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی ،پشاور ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ 24 نومبر کو ہونے والے احتجاج سے امن کی صورتِ حال کو سنگین خطرہ ہے، صوبائی حکومت کے اعلانات کی وجہ سے کاروبار متاثر ہو رہا ہے،پی ٹی آئی کو احتجاجی مارچ سے روکا جائے، احتجاج میں صوبے کے کروڑوں روپے ضائع ہوں گے، پہلے ہی صوبہ امن کی بدترین صورتِ حال سے دوچار ہے،صوبائی حکومت شہریوں کو آئینی حقوق دینے میں ناکام ہو چکی ہے۔








