نئی دہلی: بھارتی کانگریس پارٹی کے سینئر رہنما راہول گاندھی کو بہار میں ووٹر فہرست میں مبینہ ترمیمات کے خلاف احتجاج کے دوران حراست میں لے لیا گیا ہے۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب راہول گاندھی اور دیگر اپوزیشن رہنما الیکشن کمیشن کی عمارت کی جانب مارچ کر رہے تھے تاکہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف اپنی آواز بلند کر سکیں۔بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق تقریباً 300 اپوزیشن رہنما اس احتجاجی مارچ میں شامل تھے جن کی قیادت راہول گاندھی کر رہے تھے۔ یہ مارچ خاص طور پر ‘ووٹ چوری’ کے الزام کے تحت کیا جا رہا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ بہار کی ووٹر فہرستوں میں غیر قانونی ترامیم کی گئی ہیں تاکہ ووٹروں کو ووٹ ڈالنے سے محروم کیا جا سکے۔راہول گاندھی نے گزشتہ دنوں بھارتی الیکشن کمیشن اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر انتخابات میں دھاندلی کرنے کے سنگین الزامات عائد کیے تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ الیکشن کمیشن نے بی جے پی کے ساتھ مل کر عام انتخابات میں ووٹ چوری کی اور عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔
راہول گاندھی نے اپنے الزامات کی حمایت میں دستاویزی ثبوت بھی پیش کیے اور بتایا کہ کہیں ڈپلیکیٹ ووٹر آئی ڈیز بنائی گئیں، کہیں جعلی پتے درج کیے گئے اور کچھ حلقوں میں جعلی تصاویر کا بھی استعمال کیا گیا تاکہ انتخابی نتائج میں دھاندلی کی جا سکے۔ ان کے مطابق کم از کم 100 سے زائد نشستوں پر ہیرا پھیری کی گئی ہے۔راہول گاندھی نے کہا کہ اگر یہ جعل سازی نہ ہوتی تو وزیراعظم نریندر مودی آج ملک کے وزیراعظم نہ ہوتے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ انتخابات میں بی جے پی، وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں نے آئین پر حملہ کیا ہے۔کانگریس رہنما کی گرفتاری کے بعد سیاسی ہلچل بڑھ گئی ہے اور اپوزیشن جماعتوں نے حکومت پر کڑی تنقید شروع کر دی ہے کہ وہ جمہوری عمل کو نقصان پہنچا رہی ہے اور سیاسی مخالفین کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔
پولیس کی جانب سے راہول گاندھی کے ساتھ اراکین پارلیمنٹ کو بھی گرفتار کیا گیا ہے، گرفتار اراکین کو دو بسوں میں بٹھا کر لے جایا گیا ہے۔ راہل گاندھی، اکھلیش یادو، پرینکا گاندھی، جیسے سینئر رہنماؤں کوپولیس نے گرفتار کیا ہے،اس دوران راہل گاندھی نے کہا کہ ہمیں تو بولنے نہیں دیا جا رہا ہے۔
اپوزیشن کے 30 رہنماؤں کو بلایا تھا، زیادہ آ گئے، اس لئے اراکین پارلیمنٹ کو بھی حراست میں لیا، دہلی پولیس
دہلی پولیس کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے 30 رہنماؤں کو آنے کی اجازت تھی، لیکن دروازے پر بڑی تعداد میں رہنما پہنچ گئے۔ اس کی وجہ سے نظام بگڑنے کا اندیشہ تھا۔ اسی وجہ سے اراکین پارلیمنٹ کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اپوزیشن پارٹی چاہے تو اب بھی 30 اراکین پارلیمنٹ کو آرام سے الیکشن کمیشن کے دفتر لے جایا جا سکتا ہے۔