اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ سےمزید وقت مانگ لیا ، اٹارنی جنرل نے درخواست کی کہ سیاسی قائدین کے درمیان مشاورت جاری ہے ،کچھ وقت مزید دیا جائے،

سپریم کورٹ میں کیس کی دوبارہ سماعت چار بجے ہونی تھی،تا ہم ابھی تک دوبارہ سماعت شروع نہیں ہو سکی،

قبل ازیں انتخابات ایک ہی روز کرانے سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی ،چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مولا کریم لمبی حکمت دے تا کہ صحیح فیصلے کر سکیں،ہمیں نیک لوگوں میں شامل کر اور ہمارے جانے کے بعد اچھے الفاظ میں یاد رکھا جائے،سراج الحق کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، آپ نے نیک کام شروع کیا اللہ اس میں برکت ڈالے عدالت اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالے گی،صف اول کی قیادت کا عدالت آنا اعزاز ہے،قوم میں اضطراب ہے،سیاسی قیادت مسئلہ حل کرے تو سکون ہو جائے گا،عدالت حکم دے تو پیچیدگیاں بنتی ہیں، سیاسی قائدین افہام و تفہیم سے مسلہ حل کریں تو برکت ہو گی

اٹارنی جنرل عدالت کے سامنے پیش ہوئے،شاہ خاور نے عدالت میں کہا کہ بیشتر سیاسی جماعتوں کی قیادت عدالت میں موجود ہے مناسب ہو گا عدالت تمام قائدین کو سن لے، جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے الیکشن ایک ہی دن ہوں، چیف جسٹس عمر رطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی قائدین کا تشریف لانے پر مشکور ہوں،

پی ٹی آئی کی جانب سے شاہ محمود قریشی عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا آپ عدالت کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں، شاہ محمود قریشی نے عدالت میں کہا کہ عدالت کے ہر لفظ کا احترام کرتے ہیں ، ملک نے آئین کے مطابق ہی آگے بڑھنا ہے،ہمیشہ راستہ نکالنے اور آئین کے مطابق چلنے کی کوشش کی،قوم نے آپ کا فیصلہ قبول کیا ہے، دیکھتے ہیں کی حکومت کا کیا نقطہ نظر ہے، ہماری جماعت آئین کے تحفظ پر آپ کے ساتھ ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزارت دفاع کی بھی یہی استدعا ہے کہ الیکشن ایک دن میں ہوں، درخواست گزار بھی یہی کہہ رہا ہے کہ ایک ساتھ الیکشن ہوں، اٹارنی جنرل نے یہ نکتہ اٹھایا لیکن سیاست کی نظر ہوگیا،فاروق نائیک بھی چاہتے تھے لیکن بائیکاٹ ہوگیا،اخبار کے مطابق پیپلز پارٹی کے قائد بھی مذاکرات کو سراہتے ہیں،ن لیگ نے بھی مذاکرات کی تجویز کو سراہا ہے، آج 29 ویں رمضان ہے، ہمارے سامنے ایک بریفنگ دی گئی ، درخواست گزار بھی ایک ہی دن میں الیکشن چاہتے ہیں ،وزارت دفاع نے بھی بہت اچھی بریفنگ دی ،فاروق ایچ نائیک نے بھی کہا تھا کہ ایک ساتھ انتحابات ہوں،آصف زرداری کے مشکور ہیں انھوں نے ہماری تجویز سے اتفاق کیا،

پیپلز پارٹی کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک عدالت میں پیش ہوئے،اور کہا کہ خواجہ سعد رفیق، قمر زمان کائرہ، طارق بشیر چیمہ بھی آئے ہیں،ایم کیو ایم سے صابر قائم خانی، ایاز صادق اور بی این ہی بھی موجود ہیں،حکومتی سیاسی اتحاد کا مشترکہ مؤقف ہے کہ 90 دن میں انتخابات کا وقت گزر چکا ہے، عدالت دو مرتبہ 90دن سے تاریخ آگے بڑھا چکی ہے ،سیاسی جماعتیں پہلے ہی ایک ساتھ انتخابات کام شروع کر چکی ہے ،بلاول بھٹو نے اسی سلسلے میں مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی، عید کے فوری بعد سیاسی ڈاٸیلاگ حکومتی اتحاد کے اندر مکمل کرینگے،پی ٹی آٸی سے پھر مذاکرات کرینگے تاکہ ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو ،ہماری کوشش ہوگی کہ ان ڈاٸیلاگ سے سیاسی اتفاق رائے پیداہو ،الیکشن جتنی جلدی مکمن ہو ایک ہی دن ہونے چاہیے ، ہم چاہتے ہیں کسی ادارے کی مداخلت کے بغیر الیکشن ہونے چاہیں،

ن لیگی رہنما، خواجہ سعد رفیق نے عدالت میں کہا کہ ہم قیادت کے مشورے کے آپ کے سامنے آئے ہیں، ملک میں انتشار اور اضطراب نہیں ہونا چاھیے، یقین رکھتے ہیں کہ ایک ہی دن الیکشن ہونے چاھیے، ہم مقابلے پر نہیں مکالمے پر یقین رکھتے ہیں، ہم سیاسی لوگوں کو مزاکرات کے ذریعے حل نکالنا چاھیے ہم نے عید کے بعد اتحادیوں کا اجلاسں بلایا ہے، اپوزیشن کے ساتھ بات کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ریاستی اداروں کا وقت ضائع کرنے کی بجائے سیاست دانوں کو خود بات کرنی چاہیئے، عدالت میں بھی اپوزیشن کے ساتھ بغلگیر ہوئے ہیں، میڈیا پر ہونے والے جھگڑے اتنے سنگین نہیں ہوتے جتنے لگتے ہیں،

ایاز صادق بی این پی منگل کی نمائندگی کے لئے روسٹرم پر آگئے ،اور کہا کہ بی این پی والے چاغی میں تھے اس لیئے مجھے پیش ہونے کا کہا گیا، پی ٹی آئی سے ذاتی حیثیت میں رابطہ رہتا ہے آئندہ بھی رہے گا،

پیپلز پارٹی کی جانب سے قمر ذمان کائرہ پیش ہوئے اور کہا کہ خواجہ سعد رفیق کی گفتگو سے مکمل اتفاق کرتا ہوں تلخی بہت زیادہ ہے، وجوہات سے پورا ملک آگاہ ہے، بطور سیاسی جماعت حکومتی اتحادی سے پہلے بات کا آغاز کیا، جب ملک میں تلخیاں بڑھیں تو بیٹھ کر سیاسی قوتوں کو حل نکالنا پڑا، پیپلز پارٹی کی جانب سے عدالت کا مشکور ہوں، کوشش ہے کہ جلد از جلد انتخابات پر اتفاقِ رائے ہوجائے، عدالت اور قوم کو یقین دہانی کراتے ہیں ملک کیلئے بہتر فیصلے کریں گے،

طارق بشیر چیمہ بھی عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ چوہدری شجاعت حسین نے عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا، مجھے چوہدری شجاعت نے پیش ہونے کا حکم دیا تھا، پہلے دن سے مزاکرت کا عمل شروع ہو ، ملک میں ایک دن میں الیکشن ہونا چاہیئے۔ یہ بہت سے اختلافات کو ختم کردیگا ،یقین دلاتا ہوں کہ ایک دن الیکشن کرانے کی سپورٹ کرتے ہیں ، آپ فیصلہ کرینگے تو اس پر تنقید ہوسکتی ہے لیکن اگر ہم کرینگے تو پھر سب کے لئے بہتر ہوگا ، عدالت کا فیصلہ کسی کو اچھا لگے گا کسی کو برا، سیاسی قائدین کا مشترکہ فیصلہ قوم کو قبول ہوگا،

شاہ محمود قریشی روسٹرم پر آگئے۔ اور کہا کہ کسی کی خواہش کا نہیں آئین کا تابع ہوں، سپریم کورٹ نے انتخابات کے حوالے سے فیصلہ دیا، عدالتی فیصلے پر عملدرآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، عدالت نے بردباری اور تحمل کا مظاہرہ اور ائین کا تحفظ کیا تلخی کی بجائے اگے بڑھنے کیلئے آئے ہیں، سیاسی قوتوں نے ملکر ملک کو دلدل سے نکالنا ہے،پارٹی کا نقطہ نظر ہیش کرچکا ہوں، ایک سیاسی پہلو ہے دوسرا قانونی،آئین 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کے حوالے سے واضح ہے،مذاکرات سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے ، مذاکرات آئین سے بالا نہیں ہو سکتے ،عدالت نے زمینی حقائق کے مطابق 14 مئی کی تاریخ دی ،مذاکرات تو کئی ماہ اور سال چل سکتے ہیں، حکومت کا یہ تاخیری حربہ تو نہیں ہے۔ اعتماد کا فقدان ہے ،حکومت اپنی تجاویز دے جائزہ لیں گے ، عمران خان کی طرف سے کہتے ہیں کہ راستہ نکالنے کی کوشش کریں گے ، عدالت نے 27 اپریل تک فنڈز فراہمی کا حکم دیا ، عدالتی حکم پر پہلے بھی فنڈز ریلیز نہیں کیئے گئے، پارلیمنٹ کی قرارداد آئین سے بالاتر نہیں ہوسکتی، مناسب تجاویز دی گئیں تو راستہ نکالیں گے، انتشار چاہتے ہیں نہ ہی آئین کا انکار،

تحریک انصاف میں پھوٹ پڑ گئی، فرح گوگی کی کرپشن کی فیکٹریاں بحال

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیس کی سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی

بشری نے بچوں سے نہ ملنےدیا، کیا شرط رکھی؟ خان کیسے انگلیوں پر ناچا؟

ہوشیار،بشری بی بی،عمران خان ،شرمناک خبرآ گئی ،مونس مال لے کر فرار

امیرجماعت اسلامی سراج الحق بھی سپریم کورٹ پہنچ گئے،

سعد رفیق دوبارہ روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ عدالت کو ڈیبیٹ کلب نہیں بنانا چاہتے، مل بیٹھیں گے تو سوال جواب کریں گے، عدلیہ اور ملک کے لیے جیلیں کاٹی ہیں ماریں بھی کھائی ہیں، آئینی مدت سے ایک دن بھی زیادہ رہنے کے قائل نہیں ہیں ،۔قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ عدالت میں ٹاک شو یا مکالمہ نہیں کرنا چاہتے۔ ملک میں ایک ساتھ بھی الیکشن ہوئے اور مقررہ تاریخ سے اگے بھی گئے آئین بنانے والے اسکے محافظ ہیں ، آئین سے باہر جانے والوں کے سامنے کھڑے ہیں ،قمر الزمان کائرہ نے عدالت میں کہا کہ تلخ باتیں یہاں کرنا بہتر نہیں،شاہ محمود قریشی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ جواب الجواب ہم بھی دے سکتے ہیں

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے عدالت میں کہا کہ قوم عدالتی فیصلوں کو سلام پیش کرتی ہے۔عدالت کا فیصلہ پوری قوم کا فیصلہ ہوگا۔ یہ نہ ہو مذاکرات میں چھوٹی اور بڑی عید اکھٹی ہوجائے۔سیاستدان مذاکرات کا مخالف نہیں ہوتا۔ لیکن مذاکرات با معنی ہونے چاہیں ایک قابل احترام شخصیت نے آج بائیکاٹ کیا ہے ،

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے سپریم کورٹ میں کہا کہ قوم کی جانب سے عدالت کا مشکور ہوں کل پاک افغان بارڈر پر تھا، پوری رات سفر کر کے عدالت پہنچا ہوں، قرآن کریم کی تلاوت سے عدالتی کاروائی کا آغاز کرنے پر مشکور ہوں، اللہ کا حکم ہے اجتماعی معاملات میں مذاکرات کرو، اللہ کا حکم ہے یکسوئی ہوجائے تو اللہ پر اعتماد کرو، مذاکرات کرنا آپشن نہیں اللہ کا حکم ہے ، آئین اتفاق رائے کی بنیاد پر وجود میں ایا ہے، آج بھی آئین ملک کو بچا سکتا ہے، آئین کی حفاظت کرنا ملک کی حفاظت کرنا یے،دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے، 1977 میں نتائج تسلیم نہیں کیے گئے اور احتجاج شروع ہوگیا، 1977 میں سعودی سفیر اور امریکی سفیر نے مذاکرات کی کوشش کی تھی،مذاکرات ناکام ہوئے تو مارشل لاء لگ گیا، 90 کی دہائی میں ن لیگ اور پی پی پی کی لڑائی سے مارشل لاء لگا، آج ہمیں اسی منظر نامے کا سامنا ہے،امریکہ ایران اور سعودی عرب اب پاکستان میں دلچسپی نہیں لے رہے،اپنا گھر خود سیاستدانوں نے ٹھیک کرنا ہے، نیلسن منڈیلا کیساتھ ڈیکلار نے تیس سال لڑائی کے بعد مذاکرات کیے گئے ، نیلسن منڈیلا نے اپنے ایک بیٹے کا نام ڈیکلار رکھا ،پاکستان جہموری جدوجہد کے نتیجے میں بنا کسی جنرل نے نہیں بنایا ،آمریت نہ ہوتی تو ملک نہ ڈوبنا ، خیبر پختونخواہ میں کسی نے پی ٹی آئی سے استعفی دینے کا مطالبہ نہیں کیا تھا ، دونوں صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرنے پر عوام حیران ہے ، خیبر پختون خواہ والوں نے خلاف روایت دوسری مرتبہ پی ٹی آئی کو ووٹ دیا

سراج الحق نے سپریم کورٹ میں اپنے موقف میں کہا کہ میں نے وزیراعظم اور عمران خان سے ملاقات کی،مسائل کا حل صرف الیکشن ہیں، اور کوئی راستہ نہیں، عمران خان کو کہا نہیں چاہتا ملک میں 10 سال مارشل لاء لگے،عمران خان نے کہا میری عمر اس سے زیادہ نہیں، میں بھی یہ نہیں چاہتا، کسی کی ذاتی خواہش پر الیکشن نہیں ہوسکتے،90 دن سے الیکشن 105 دن پر آ گئے، اگر 105 دن ہوسکتے ہیں تو 205 دن بھی ہوسکتے ہیں، میڈیا نے پوچھا کیا آپ کو اسٹیبلشمنٹ نے اشارہ کیا ہے، میرا مؤقف ہے عدلیہ، افواج اور الیکشن کمیشن کو سیاست سے دور ہونا چاہیے، ہر کسی کو اپنے مؤقف سے ایک قدم ہیچھے ہٹنا ہوگا، مسائل کی وجہ یہ ہے کہ عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن غیر سیاسی نہیں ہوئے،سیاسی جماعتیں کبھی الیکشن سے نہیں بھاگتیں، ہمارا موقف کبھی ایک کو اچھا لگتا ہے کبھی دوسری جماعت کو،سیاسی لڑائی کا نقصان عوام کو ہے جو ٹرکوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ،ایک کلو آٹے کے لیے لوگ محتاج ہیں، ایک من آٹے کی قیمت 6500 ہو گئی ہےلوگوں کے چہرے سے مسکراہٹ ختم ہو چکی ہے ہمیں نگران حکومتوں نے ڈسا ہے تو منتخب حکومت کیسے شفاف انتخابات کرا سکتی ہے؟

سراج الحق نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ پنجاب کے رہنے والے ہیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پشتو میں جواب دیا کہ پشتو سمجھتا ہوں، ہم پر لیبل نہ لگائیں، ہم پاکستانی ہیں، سراج الحق نے عدالت میں کہا کہ گندم کی کٹائی اور حج کا سیزن گزرنے دیا جائے، بڑی عید کے بعد مناسب تاریخ پر الیکشن ہونا مناسب ہوگا، عدالت یہ معاملہ سیاست دانوں پر چھوڑے اور خود کو سرخرو کرے،عدالت پنجاب میں الیکشن کا شیڈول دے چکی ہے،

عمران خان کے وکیل سلیمان اکرم راجہ عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ عید کی چھٹیوں میں ذمان پارک میں آپریشن کا خطرہ ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس کاروائی میں آپریشن کا معاملہ نہیں دیکھ سکتے،اپ نے متعلقہ عدالت سے رجوع کر رکھا ہے، وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہائیکورٹ نے تاحال حکم جاری نہیں کیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہائیکورٹ کا حکم آ جائے گا، ایک تجویز ہے کہ عدالت کاروائی آج ختم کردے، تمام سیاسی قائدین نے آج آئین کی پاسداری کا اعادہ کیا ہے،آئین پر نہیں چلیں گے تو کئی موڑ آجائیں گے،آئین کے آرٹیکل 254 کی تشریح کبھی نہیں کی گئی، آرٹیکل 254 کے تحت تاریخ نہ بڑھائی جائے اس لیے اس کی تشریح نہیں کی گئی،
الیکشن کمیشن نے غلط فیصلہ کیا جس پر عدالت نے حکم جاری کیا،13 دن کی تاخیر ہوئی تب عدالت نے حکم دیا، الیکشن کمیشن شیڈول میں تبدیلی کے لیے بااختیار ہے، پولنگ کا دن تبدیل کیے بغیر الیکشن کمیشن شیڈول تبدیل کر سکتا ہے، الیکشن کمیشن رجوع کرے عدالت مؤقف سن لے گی

سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کو ڈیڑھ گھنٹے کا وقت دے دیا، عدالت نے عید کے بعد کا وقت دینے کی استدعا مسترد کر دی اور سیاسی جماعتوں کو فوری طور پر بیٹھنے کا حکم دے دیا ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں الیکشن کی تاریخ 14 مئی ہے، 1970 اور 71 کے نتائج سب کے سامنے ہیں، عدالت آئین اور قانون کی پابند ہے، سراج الحق، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے کوشش کی ہے،بعد میں پی ٹی آئی نے بھی ایک ساتھ انتخابات کی بات کی ہے، ان کیمرہ بریفنگ دی گئی لیکن عدالت فیصلہ دے چکی تھی، حکومت کی شاید سیاسی ترجیح کوئی اور تھی، ہم 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لے رہے ، 14 مئی کی تاریخ برقرار ہے اور رہے گی ،یاد رکھنا چاہیئے کہ عدالتی فیصلہ موجود ہے، یقین ہے کہ کوئی رکن اسمبلی عدالتی فیصلے کے خلاف نہیں جانا چاہتا، آج کسی سیاسی لیڈر نے فیصلے کو غلط نہیں کہا، مذاکرات میں ہٹ دھرمی نہیں ہو سکتی ،دو طرفہ لین دین سے مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں، گزارش ہو گی کہ پارٹی سربراہان عید کے بعد نہیں آج بیٹھیں، جولائی میں بڑی عید ہو گی اس کے بعد الیکشن ہو سکتے ہیں،عید کے بعد انتخابات کی تجویز سراج الحق کی ہے

Shares: