سیکرٹری سپریم کورٹ بار کو ڈی سیٹ کرنے کے فیصلے کو معطل کرنے کی استدعا مسترد
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری اور ایڈیشنل سیکرٹری کو ڈی سیٹ کرنے کا معاملہ ،سیکرٹری سپریم کورٹ بار اور ایڈیشنل سیکرٹری بار کو پاکستان بار کونسل کی جانب سے ڈی سیٹ کرنے کے فیصلے کو معطل کرنے کی استدعا مسترد کردی،
جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل دو رکنی خصوصی بنچ نے سپریم کورٹ بار کے ڈی سیٹ ہونے والے عہدیدران کی درخواست کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ڈی سیٹ ہونے والے عہدیدران کی درخواست پر پاکستان بار کونسل کو نوٹس جاری کردیا ،سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے معاملات سے متعلق حکم امتناع جاری کرتے ہوئے سماعت منگل تک ملتوی کردی۔ سپریم کورٹ بار نے کہا کہ درخواستوں کے پہلے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ ہوگا تو پھر ہی اس معاملے کو دیکھیں گے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پہلے ہمیں یہ بتایا جائے کہ کیا یہ درخواستیں قابل سماعت ہیں، یہ ایک تنظیم ہے تو یہ کیسے عوامی مفاد سے جڑی ہے، تنظیم کو اس سے نہ جوڑیں۔ ہمیں پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے معاملے کا پتہ نہیں پہلے ہمیں حقائق بتائیں۔
وجہ کیا بنی۔ شوکاز نوٹس سے پہلے آپ کو خط لکھا گیا۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ 184 (3) کے میں یہ معاملہ کیسے آتا ہے، ہمیں اس پر مطمئن کیا جائے۔صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ بار آئین کی حکمرانی اور قانون کی پاسداری کو یقینی بناتی ہے۔ سیکرٹری پاکستان بار کونسل نے شوکاز نوٹس سے قبل خطوط لکھے لیکن درخواستوں گزاروں کو سماعت کا موقع دیے بغیر پھر ڈی سیٹ کردیا۔ سپریم کورٹ میں میرا ایک کیس تھا اور اسی وقت لاہور میں 24 اپریل کو اجلاس تھا۔ میں نے اجلاس کا وقت تبدیل کرنے کا کہا تاہم اس دن پھر سپریم کورٹ بار کے دو اجلاس ہوئے، میرے لاہور پہنچنے سے پہلے سپریم کورٹ بار کے کچھ عہدے داروں نے اجلاس کرکے اسے ختم کردیا۔ میں لاہور پہنچا تو میں نے اپنا اجلاس بلا لیا، پھر یہاں سے معاملات خراب ہوئے۔ جی، خط لکھا اور ہم نے آگاہ کیا کہ معاملہ ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے شوکاز نوٹس جاری نہیں کیا جاسکتا۔اس کے باوجود پاکستان بار کونسل نے ہمارے سیکرٹری اور ایڈشنل سیکرٹری کو ڈی سیٹ کرکے فنانس سیکرٹری کو چارج دے دیا
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پاکستان بار کونسل سے کون آیا ہے۔ وکیل شعیب شاھین نے کہا کہ ہم نے پاکستان بار کونسل کو کیس کی سماعت سے متعلق آگاہ کیا لیکن کوئی بھی سماعت میں نہیں آیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ ہمیں ابھی تک نہیں بتا سکیں کہ یہ معاملہ براہ راست بنیادی انسانی حقوق سے کیسے جڑا ہوا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ براہ راست سپریم کورٹ کیسے آسکتے ہیں۔ صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ آپ ہائیکورٹ کیوں نہیں گئے ، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ متعلقہ فورم کیا ہائیکورٹ نہیں بنتی۔شعیب شاھین نے کہا کہ ہائیکورٹ سید اقبال گیلانی کیس کے بعد ایسے معاملات کو نہیں دیکھتی۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یہ الیکشن کا معاملہ نہیں آپ ہائیکورٹ جاسکتے ہیں۔ عابد زبیری نے کہا کہ شعیب شاھین اور پاکستان بار کونسل کا کیس دیکھیں تو واضح ہوجائے گا۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کہاں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ بار کے معاملات سپریم کورٹ دیکھے گی۔ شعیب شاھین تو پہلے ہائیکورٹ گئے تھے پھر ان کا معاملہ سپریم کورٹ آیا تھا۔ آپ ہم سے اصول طے کرانا چاہتے ہیں کہ آئندہ سے سپریم کورٹ بار کے معاملات سپریم کورٹ ہی دیکھے۔ کیا سپریم کورٹ بار کے عہدے داروں کو ڈی سیٹ کرنے کا اختیار پاکستان بار کونسل کو ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ شوکاز نوٹس کون جاری کرتاہے۔ صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے کہا کہ پاکستان بار کونسل کی انظباطی کمیٹی جاری کرتی ہے لیکن یہاں ایگزیکٹو کمیٹی نے کیا ہے۔ انظباطی کمیٹی بھی شکایت کے بعد نوٹس جاری کرتی ہے یہاں تو شکایت ہی نہیں۔ یہ نوٹس غیر قانونی ہے خود نوٹس میں بھی نہیں لکھا کہ کس قاعدے کے تحت جاری کیا۔ یہاں عہدے داروں کو ڈی سیٹ کرکے معاملہ انظباطی کمیٹی کو بھیجا گیا۔ عدالت شوکاز نوٹس کو معطل سیکرٹری اور ایڈشنل سیکرٹری کو بحال کرے۔ ابھی تو ہم نے معاملے کے قابلِ سماعت ہونے کو دیکھنا ہے کیسے ہم نوٹس معطل کرسکتے ہیں۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ کا کیس ہے کہ پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کو ڈی سیٹ کرنے کا اختیار نہیں۔ ہم سوالات کے جوابات تلاش کررہے ہیں۔ سب سے اہم سوال ہے کہ معاملہ 184 کی شق 3 میں کیسے آتا ہے۔








