سپریم کورٹ میں پنجاب اورکے پی میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر سپریم کورٹ پہنچ گئے،الیکشن کمیشن کی قانونی ٹیم بھی سپریم کورٹ پہنچ گئی ،وفاقی کابینہ کے ارکان کی کمرہ عدالت آمد ہوئی،وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ بھی عدالت میں موجود تھے،کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل لارجر بینچ نے کی،

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں، فیصلہ چار کا تھا تین کا نہیں،چار ججز نے اس معاملے کو نمٹا دیا تھا، آرڈر اف کورٹ جاری نہیں ہوا تو الیکشن کمیشن کیسے عملدرآمد کرسکتا ہے، آرڈر اف کورٹ چار ججز کا بنتا ہے، اپنے فیصلے پر قائم ہوں، میرے بارے میں غلط تاثر دیا گیا، میرے کل سے منسوب بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، سپریم کورٹ رولز سے متعلق میں نے کہا کہ وہ اندرونی معاملہ ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس جمال کو کہا کہ الیکشن کمیشن آرڈر کے بغیر کیسے عمل کررہا ہے،چار ججز میں سے 2 میرے بھی سینئر ہیں چلیں آپ کی وضاحت آ گئی ہے،جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ میں نےابھی بات کرنی ہےفل کورٹ کیوں وہی 7 ججز بنچ میں بیٹھنے چاہیں،چار ججز نے پی ٹی آٸی کی درخواستیں خارج کی ،ہمارے حساب سے فیصلہ چار ججز کا ہے، ،چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں کیا، جب آرڈر آف کورٹ نہیں تھا تو صدر مملکت نے الیکشن کی تاریخ کیسے دی،جب آرڈر آف کورٹ نہیں توالیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے دیا؟

وکیل فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر اگئے اور کہا کہ پارٹی بننے کی درخواست دائر کردی ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ اپنا موقف پیش کرنا چاہتے ہیں، آپ کی درخواست پی ڈی ایم کی طرف سے ہے؟پہلے الیکشن کمیشن کے وکیل کو سنیں گے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے، الیکشن کمیشن کی جانب سے عرفان قادر عدالت میں پیش،کہا میری آج پہلی پیشی ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ سے پہلے سواتی صاحب کمیشن کے وکیل تھے،ہم اس کیس کو اگے لے جانا چاہتے ہیں،

دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے ماحول کو خراب نہ کیا جائے، سماعت کے دائرہ اختیار پر اعتراض اٹھائیں تو دیکھیں گے،وکیل پیپلز پارٹی نے کہا کہ آپ فریق بنیں گے تو ہم اعتراض اٹھائیں گے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ تحمل کا مظاہرہ کریں،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں تحمل کا ہی مظاہرہ کر رہا ہوں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ تاریخ مقرر کرنے کے بعد شیڈول جاری کیا اور انتخابات کی تیاریاں شروع کردیآرٹیکل 218 کی زمہ داری کسی بھی قانون سے بڑھ کر ہے ،انتخابات کےلیے سازگار ماحول کا بھی آئین میں ذکر ہے، آرٹیکل 224 کےتحت الیکشن 90 روز میں ہونا ہیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے اچھی تیاری کی ہے،

سجیل سواتی نے کہا کہ عدالتی آرڈر میں لکھا ہے کہ فیصلہ 3/2 سے ہے، 3/2 والے فیصلے پر پانچ ججز کے دستخط ہیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کمیشن نے فیصلہ کے پیراگراف 14 اور ابتداء کی سطروں کو پڑھ کرعمل کیا، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کیا آپ نے مختصر حکم نامہ دیکھا تھا ، سجیل سواتی نے کہا کہ ممکن ہے کہ ہمارے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو،جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا مختصرحکمنامے میں لکھا ہے کہ فیصلہ 4/3 کا ہے،سجیل سواتی نے کہا کہ اسی بات کو دیکھ کر عدالتی حکم پر عمل کیا ،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یکم مارچ کے اختلافی نوٹ میں کہیں نہیں لکھا کہ فیصلہ 4/3 کا ہے،اختلاف رائے جج کا حق ہے،یہ اقلیت کسی قانون کے تحت خود کو اکثریت میں ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی، کھلی عدالت میں پانچ ججز نے مقدمہ سنا اور فیصلے پردستخط کیے،جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا، مختصرحکم نامے میں لکھا ہے کہ اختلافی نوٹ لکھے گئے ہیں، اختلافی نوٹ میں واضح لکھا ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور اطہرمن اللہ کے فیصلے سے متفق ہیں،کیا جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے ہوا میں تحلیل ہو گئے، چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جو معاملہ ہمارے چیمبرز کا ہے اسے وہاں ہی رہنے دیں، اٹارنی جنرل اس نقطہ پر اپنے دلائل دیں گے، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ تفصیلی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کا کیا موقف ہے،سجیل سواتی نے کہا کہ 4/3 کے فیصلے پر الیکشن کمیشن سے ہدایات نہیں لیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کی، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ججز کا احترام ہے مگر اقلیتی فیصلہ اکثریتی فیصلے پرغالب نہیں آ سکتا، قانون واضح ہے کہ اقلیتی فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی،جسٹس منصور اور جسٹس جمال خان کا فیصلہ اقلیتی ہے

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ آٹھ فروری کے لیٹرز پر انحصار کر رہے ہیں ، عدالت نے یکم مارچ کو اپنا فیصلہ دیا، کیا آپ کو فروری میں خیال تھا کہ اکتوبر میں الیکشن کروانا ہے، دوسری طرف آپ کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے سے انحراف کا سوچ نہیں سکتے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ اس کے علاوہ بہت سارے سوالات ہیں، جسٹس منیب اختر کے سوالات نوٹ کر لیں، آپ دلائل دیں پھر سوالوں کے جواب دیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے فوج کے جوان دینے سے انکار کیا گیا ،آئین کا آرٹیکل 17 پرامن انتخابات کی بات کرتا ہے، آئین کے مطابق انتخابات صاف شفاف پرامن سازگار ماحول میں ہوں ،ایجنسیوں نے الیکشن کمیشن کو خفیہ رپورٹس دیں ،عدالت کہے گی تو خفیہ رپورٹس بھی دکھا دیں گے،رپورٹس میں بھکر میانوالی میں مختلف کالعدم تنظیموں کی موجودگی ظاہر کی گئی،الیکشن کے لیے چار لاکھ بارہ ہزار کی نفری مانگی گئی تھی،دو لاکھ ستانوے ہزار سیکیورٹی اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے، پس منظر کے طور پر ان رپورٹس کا حوالہ دیا،الیکشن کمیشن نے فیصلہ 22 مارچ کو کیا،اس سے پہلے یہ گراؤنڈز دستیاب تھے، اس کے بعد انتخابات کے حوالے سے میٹنگز ہوئیں،وزارت داخلہ نے بھی 8 فروری کے خط میں امن و امان کی خراب صورتحال کا زکر کیا،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں 20 ارب کا ذکر ہے لیکن کل عدالت کو 25 ارب کا بتایا گیا، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پانچ ارب روپے پہلے ہی الیکشن کمیشن کو جاری ہو چکے ہیں، وزارت خزانہ نے بتایا کہ موجودہ مالی سال میں الیکشن کے لیے فنڈز جاری نہیں کر سکتے،پنجاب کیلئے 2لاکھ 97 ہزار سیکورٹی اہلکاروں کی کمی کا بتایا گیا،جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا الیکشن کیلئے قومی اسمبلی نے فنڈز کی منظور دی ہوئی ہے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ وزارت خزانہ اس بات کا تفصیل سے جواب دے سکتی ہے،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ الیکشن تو ہر صورت 2023 میں ہونا تھے، کیا بجٹ میں 2023 الیکشن کیلئے رقم مختص نہیں کی گئی تھی؟ اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ انتخابات کیلئے بجٹ آئندہ مالی سال میں رکھنا ہے، قبل ازوقت اسمبلی تحلیل ہوئی اس کا علم نہیں تھا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ اگر انتخابات پورے ملک میں ایک ساتھ ہوں تو کتنا خرچ ہوگا، اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ ملک بھر میں ایک ہی دفعہ انتخابات ہوں تو 47ارب روپے خرچ ہوں گے،انتخابات الگ الگ ہوں تو 20 ارب روپے اضافی خرچ ہوگا، وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت میں کہا کہ سپیشل سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ سیاسی شخصیات کو سیکورٹی خطرات ہیں، وزارت داخلہ کے مطابق سیکورٹی خطرات صرف الیکشن کے روز نہیں الیکشن مہم کے دوران بھی ہوں گے،الیکشن کمیشن کو بتایا گیا تھا کہ فوج کی تعیناتی کے بغیر الیکشن کو سکیورٹی فراہم کرنا ناممکن ہو گا، سپیشل سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ ان حالات میں پرامن انتخابات کا انعقاد نہیں ہو سکتا، سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی نے بتایا کہ کے پی کے میں کالعدم تنظیموں نے متوازی حکومتیں بنا رکھی ہیں، خفیہ رپورٹس میں بتایا گیا کہ دو مختلف دہشتگرد تنظیمیں متحرک ہیں، خفیہ رپورٹس کے مطابق خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں شیڈو حکومتیں قائم ہیں ،2023 میں سکیورٹی کے 443 تھریٹس کے پی کے میں موصول ہوئے، کے پی کے میں رواں سال دہشگردی کے 80 واقعات ہوئے، 170 شہادتیں ہوئیں، خفیہ رپورٹس کے مطابق ان خطرات سے نکلنے میں چھ سے سات ماہ لگیں گے، رپورٹس کے مطابق عوام میں عدم سکیورٹی کا تاثر بھی زیادہ ہے،خیبرپختونخوا کے 80 فیصد علاقوں سکیورٹی خطرات زیادہ ہیں،

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیسی بات کر رہے ہیں ، دو اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں ،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ خفیہ اداروں کی رپورٹس میں جو حقائق بیان کیے گئے وہ نظرانداز نہیں کر سکتے، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا کوئی طریقہ کار ہے الیکشن کمیشن ان رپورٹس کی تصدیق کروا سکے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کا ایشو تو ہے !بیس سال سے ملک میں دہشتگردی کا مسئلہ ہے، اس کے باوجود ملک میں انتخابات ہوتے رہے ہیں۔ 90کی دہائی میں تین دفعہ الیکشن ہوئے، 90 کی دہائی میں ملک میں فرقہ واریت اور دہشگردی عروج پر تھی،58/2 بی کے ہوتے ہوئے ہر تین سال بعد اسمبلی توڑ دی جاتی تھی، پنجاب میں دہشتگردی کے پانچ واقعات ہوئے ، آخری واقعہ سابق وزیراعظم عمران خان پر قاتلانہ حملہ تھا،

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ صدر مملکت کو یہ حقاٸق بتائے بغیر آپ نے الیکشن کی تاریخیں تجویز کر دیں، صدر مملکت نے تاریخ کی تبدیلی پرالیکشن کمیشن کو خط نہیں لکھا ،صدر مملکت نے تاریخ کی تبدیلی پر وزیراعظم کو خط لکھ دیا ، جسٹس منیب اختر نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ اگر ادارے آپکو معاونت فراہم کریں تو کیا آپ الیکشن کروائینگے؟ بظاہر الیکشن کمیشن کا سارا مقدمہ خطوط پر ہے، الیکشن کمیشن کا مسٸلہ فنڈزکی دستیابی کا ہے،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کا مقصد سیاسی نظام کو چلنے رہنے دینا ہے۔ سیاسی جماعت بھی سیاسی نظام کو آگے بڑھانے کی مخالفت نہیں کرتی، ایک مسئلہ سیاسی درجہ حرارت کا ہے، علی ظفر اور اٹارنی جنرل کو سیاسی درجہ حرارت کم کرنے پر ہدایت لیکر آگاہ کرنے کا کہا تھا، سیاسی درجہ حرارت کم ہونے تک انتحابات پر امن نہیں سکتے، کسی فریق نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی، وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت کو مکمل یقین دہانی کروانے کے لیے تیار ہیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے علی ظفر سے استفسار کیا کہ یقین دہانی کس کی طرف سے ہے؟ وکیل عی ظفر نے کہا کہ چیرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے تحریری یقین دہانی کروائیں گے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی پارٹی کی باری آئے گی تو ان سے بھی اس حوالے سے بات کریں گے،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جہاں مسئلہ زیادہ ہے اس ضلع میں انتحابات موخر بھی ہوسکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے کچے کے آپریشن کیوجہ سے پورے پنجاب میں الیکشن ملتوی کردیا ۔کے پی کے میں الیکشن کیُ تاریخ دیکر واپس لی گئی۔ اٹھ اکتوبر کی تاریخ پہلے سے مقرر کی گئی ،آٹھ اکتوبر کو کونسا جادو ہو جائے گا جو سب ٹھیک ہو جائے گا، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آٹھ اکتوبر کی تاریخ عبوری جائزے کے بعد دی گئی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عبوری جائزے کا مطلب ہے کہ انتحابات مزید تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں۔عدالت کو پکی بات چاہیے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ صاف شفاف انتخابات یقینی بنانے کے لئے الیکشن کمیشن کوئی بھی حکم جاری کرسکتا ہے،ورکرز پارٹی فیصلہ کے مطابق صاف شفاف انتخابات کے لئے وسیع اختیارات ہیں،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں اداروں سے معاونت نہیں مل رہی،الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری سے کیسے بھاگ سکتا ہے؟ صاف شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی زمہ داری ہے انتخابی شیڈول پر عملدرآمد شروع ہوگیا تھا، اگر کوئی مشکل تھی تو عدالت آ جاتے، الیکشن کمیشن وضاحت کرے کہ انتخابات 6 ماہ آگے کیوں کردیئے؟ کیا ایسے الیکشن کمیشن اپنیذمہ داری پورے کریگا؟ کیا انتخابات میں 6 ماہ کی تاخیر آئینی مدت کی خلاف ورزی نہیں؟

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات کرانے کا اختیار کس دن سے شروع ہوتا ہے؟ انتخابی تاریخ مقرر ہونے سے اختیار شروع ہوتا ہے،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ تاریخ مقرر ہوجائے تو اسے بڑھانے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صرف پولنگ کا دن نہیں پورا الیکشن پروگرام موخر کیا ہے،الیکشن کمیشن شیڈول تبدیل کرسکتا ہے تاریخ نہیں،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن ٹھوس وجوہات پر الیکشن پروگرام واپس لے سکتا ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ گورنر اور صدر کی دی گئی تاریخ الیکشن کمیشن کیسے تبدیل کر سکتا ہے!آئین میں واضح ہے کہ پولنگ کی تاریخ کون دے گا !کیا الیشکن ایکٹ کا سیکشن 58 آئین سے بالا تر ہے؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع کر کے قائل کرنا چاہئے تھا الیکشن کمیشن کو موقع ہے آج بھی عدالت کو قائل کرسکتا ہے، کیا 8 اکتوبر کوئی جادوئی تاریخ ہے جو اس دن سب ٹھیک ہوجائے گا ،8 اکتوبر کی جگہ 8 ستمبر یا 8 اگست کیوں نہیں ہوسکتی؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ 6 ماہ کا وقت مکمل ہونے کے بعد 8 اکتوبر کو پہلا اتوار بنتا ہے،جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کیا پولنگ کی تاریخ الیکشن پروگرام کا حصہ ہوتی ہے؟ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ صدر کی تجویز کردہ تاریخ کمیشن کی تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتی، صدرکو فروری میں ہونے والے اجلاسوں سے کیوں آگاہ نہیں کیا گیا؟ جب معلوم تھا کہ 30 اپریل کو الیکشن نہیں ہوسکتے تو تاریخ تجویز ہی کیوں کی گئی؟ عدالت نے صدر کو آگاہ کرنے سے نہیں روکا، الیکشن شیڈول پر عمل کرنے کا کیا فائدہ ہوا جب آج پھر عدالت میں کھڑے ہیں؟ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر صدر تاریخ کا اعلان کردیں تو کیا الیکشن کمیشن اختیار استعمال کرکے انتخابات سے انکار کرسکتا ہے؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پرانا شیڈول ختم کرکے نیا شیڈول جاری نہیں کیا،الیکشن شیڈول کی بجائے الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر کو جھنڈا لگا دیا ہے،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیکشن 58 الیکشن کمیشن کو تاریخ بڑھانے کی اجازت نہیں دیتا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ چاہتے ہیں عدالت 8 اکتوبر کی تاریخ پر مہر لگائے، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے صرف اپنے حکم کا دفاع کرنا ہے،عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں یہ درخواست گذار نے ثابت کرنا ہے،

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تمام اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں تو کیا الیکشن کمیشن انتخابات سے معذوری ظاہر کر سکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن انتخابات کیلئے حکومت پر انحصار کرتا ہے، حکومت نے بتانا ہے کہ وہ مدد کرنے کی پوزیشن میں ہے یا نہیں، کیا الیکشن کمیشن حکومت کی بریفنگ پر مطمئن ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ اگر پیسے اور سکیورٹی مل جائے تو 30 اپریل کو انتخابات ہو سکتے ہیں؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن راستہ نہیں ڈھونڈ سکتا تو ہم ڈھونڈیں گے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر الیکشن تاخیر سے ہوئے تھے، 2008 میں حالات ایسے تھے کہ کسی نے انتخابات ملتوی کرنے پہ اعتراض نہیں کیا، اللہ کرے 2008 والا واقعہ دوبارہ نہ ہو، بنیادی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین کی تشریح ہو گئی ہے، آرٹیکل 218-3 ارٹیکل 224 سے بالاتر کیسے ہوسکتا ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آرٹیکل 218-3 شفاف منصفانہ انتحابات کی بات کرتا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ شفاف انتحابات نہیں ہوں گے تو کیا ہو گا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن شفاف نہ ہوں تو جہموریت نہیں چلے گی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ساز گار ماحول کا کیا مطلب ہے کہ کوئی کسی پر انگلی نہ اٹھائے، چھوٹی موٹی لڑائی جھگڑے تو ہر ملک میں ہوتے ہیں، اصل معاملہ یہ ہے کہ اسلحہ کا استعمال نہ ہو،اگر معمولی جھگڑا بھی نہیں چاہتے تو ایسا نظام بنائیں لوگ گھر سے ہی ووٹ کاسٹ کریں،سمندر پار پاکستانی ووٹ کا حق مانگتے ہیں سپریم کورٹ کا حکم بھی موجود ہے،الیکشن کمیشن نے ابھی تک سمندر پار پاکستانیوں کی ووٹنگ کے لیے کچھ نہیں کیا،حکومت سے پوچھتے ہیں کہ چھ ماہ کا عرصہ کم ہو سکتا ہے یا نہیں،

ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کے دلائل شروع ہو گئے ، عدالت میں کہا کہ گورنر کے پی نے ابھی تک انتخابات کی تاریخ نہیں دی، جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ نگران حکومت نے گورنر کو تاریخ دینے کا کیوں نہیں کہا؟ ایڈوکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی معاونت کے لئے تیار ہیں،جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا گورنر کے پی نے تاریخ کا اعلان کیا ہے؟ کامران مرتضیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو تاریخ سے آگاہ کردیا ہے، گورنر نے 28 مئی کی تاریخ دی تھی،ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے کہا کہ گورنر کے پی نے 8 اکتوبر کی تاریخ دی ہے،گورنر کا خط کل موصول ہوا ہے ہدایات کےلئے وقت دیں ، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے فوری اور جلد از جلد تاریخ دینے کا کہا تھا،گورنر کے پی نے 8 اکتوبر کی تاریخ کس بنیاد پر دی ہے؟اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 روز 30 اپریل کو پورے ہورہے ہیں،90 دن سے کم سے کم آگے کی تاریخ 28 مئی کیسے دی گئی؟ وکیل کامران مرتضی نے کہا کہ کل گورنر کے پی سے ہدایات لیکر آگاہ کرونگا،

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کمرہ عدالت میں سو گئے، وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنی سیٹ سے اٹھ کر رانا ثنا اللہ کو نیند سے جگایا ،وزیر مذہبی امور مفتی عبدالشکور بھی کمرہ عدالت میں سو گئے

سماعت کے آغاز سے قبل سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام کی جانب سے انتخابات ملتوی کیس میں فریق بننے کی درخواست وصول کرلی،قبل ازیں رجسٹرار آفس نے ن لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یوآئی ف کی پارٹی بننے کی متفرق درخواست لینے سے انکار کر دیا تھا، رجسٹرار آفس نے تینوں سیاسی جماعتوں کو پارٹی بننے کی درخواست دوران سماعت عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی تھی مگر بعد میں رجسٹرار آفس نے درخواست وصول کر لی،

گزشتہ روز سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایمرجنسی لگا کر ہی الیکشن ملتوی کیے جا سکتے ہیں سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کرسکتا ہے یا نہیں، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی

دوسری جانب وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ گزشتہ قومی اسمبلی اجلاس میں پیش ہونے والے بل کو کمیٹی میں بھجوایا گیا سپریم کورٹ میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے یہ بل پیش کیا گیا 184(3) کے دائر اختیار کو زیر بحث لایا جائے بنیادی حقوق کے حوالے سے وزارت قانون کام کر رہی تھی گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے فیصلوں کی صورت میں بھی آوازیں آئیں ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مناسب وقت ہے کہ پارلیمنٹ اپنا کردار ادا کرے

تحریکِ انصاف کے وکیل علی ظفر نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جہاں جہاں نظام کو بہتر بنانے کی بات ھے ہمیں کوئی اعتراض نہیں، اٹارنی جنرل کا بڑا عہدہ ہوتا ہے، مجھے نا کبھی شوق ہوا نا آفر ہوئی،جتنے اٹارنی جنرل آئے ہیں سب اچھے پائے دار وکیل تھے ،مجھے اٹارنی جنرل بننے کا کوئی شوق نہیں

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حاضر ہوئے کہ عدالت عظمی سے انصاف چاہتے ہیںملک میں رواداری رول آف لاء میں عدالت عظمی اپنا کردار ادا کرے ،بد قسمتی سے ایسے فیصلے ہوتے رہے ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں ان بیلنس ہوا،ان فیصلوں پر لوگوں کو شکوک و شبہات ہے، کہا جارہا ہے یہ تین دو کا فیصلہ کیا، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ چار ایک کا فیصلہ ہے، یہ معاملات ختم ہونے چاہئیے، سپریم کورٹ کا فیصلہ اندرونی معاملہ نہیں ہوسکتا ،یہ ابہام فل کورٹ ہی ختم کرسکتا ہے،کل پارلیمنٹ میں سوموٹو نوٹس کے متعلق ایکٹ قومی اسمبلی میں پیش ہوا ہے ، امید ہے وہ آج پاس ہوجائے گا،بابا رحمتے بعد میں بابا زحمتے ثابت ہوا ، کورٹ سے انصاف چاہتے ہیں،ملک میں رول آف لاء میں عدالت عظمی کا کرادر چاہتے ہیں،اس سے پہلے جو ناانصافیاں ہوئی لوگوں کو اس پر اعتراض ہے،ججز بھی کہہ رہے ہیں فیصلہ 4 تین سے تھا،آج بھی استدعا ہے سوموٹو کو فل کورٹ کی طرف لے جایا جائے،سپریم کورٹ آف پاکستان قوم کی رہنمائی کرے گی،سپریم کورٹ کے پاس مارل اتھارٹی ہے،جب سپریم کورٹ کے ججز آمنے سامنے ہوں اس وقت پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے،

عمران فتنے نے اشتعال انگیزی پھیلا رکھی ہے نوازشریف کو بالکل واپس نہیں آنا چاہیے عفت عمر
گھر سے بھاگنے کے محض ڈیڑھ دو سال کے بعد میں اداکارہ بن گئی کنگنا رناوت
انتخابات ملتوی کرنےکامعاملہ،الیکشن کمیشن ،گورنر پنجاب اورکے پی کو نوٹس جاری
اسلام آباد ہائیکورٹ؛ کراچی کی 6 یوسز میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی روکنے کا حکم

Shares: