مالی سال 2020-21ء کا وفاقی بجٹ پیش کردیا گیا ، حکومت کا نیا ٹیکس عائد نہ کرنےکا اعلان

0
80

مالی سال 2020-21ء کا وفاقی بجٹ پیش کردیا گیا ، حکومت کا نیا ٹیکس عائد نہ کرنےکا اعلان

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے 70 کھرب 13 ارب روپے کا بجٹ پیش کردیا جس میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے بجٹ پیش کیا۔

قومی اسمبلی میں مالی سال 21-2020 کی بجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے صنعت حماد اظہر نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا دوسرا سالانہ بجٹ پیش کرنا میرے لیے اعزاز اور مسرت کی بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں اگست 2018 میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا، ہم نے ایک مشکل سفر سے ابتدا کی اور معیشت کی بحالی کے لیے اپنی کاوشیں شروع کی تاکہ وسط مدت میں معاشی استحکام اور شرح نمو میں بہتری لائی جاسکے، ہماری معاشی پالیسی کا مقصد اس وعدے کی تکمیل ہے جو ہم نے نیا پاکستان بنانے کے لیے عوام سے کر رکھا ہے اور ہر گرزتے سال کے ساتھ ہم اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 2 سال کے دوران ہمارے رہنما اصول رہے ہیں کہ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے، سرکاری اداروں میں زیادہ شفافیت لائی جائے، احتساب کا عمل جاری رکھا جائے اور ہر سطح پر فیصلہ سازی کے عمل میں میرٹ پر عمل درآمد کیا جائے۔

حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے عوام کی صلاحیت پر پورا اعتماد ہے اور مطلوبہ اہداف کے حصول میں ان کے تعاون کی اشد ضرورت ہے، تحریک انصاف سماجی انصاف کی فراہمی، معاشرے کے کمزور طبقات کے حالات بہتر کرنے کے اصول پر کاربند ہے اور پسے طبقے کے لیے کام کرنے کا عزم رکتھی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرنے سے قبل میں ایوان کو یہ بتانا چاہوں گا کہ گزشتہ حکومت سے ورثے میں ہمیں کیا ملا، جب 2018 میں ہماری حکومت جب آئی تو ایک معاشی بحران ورثے میں ملا، اس وقت ملکی قرض 5 سال میں دوگنا ہوکر 31 ہزار ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا تھا، جس پر سود کی رقم کی ادائیگی ناقابل برداشت ہوچکی تھی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب روپے جبکہ تجارتی خسارہ 32 ارب روپے کی حد تک پہنچ چکا تھا اور برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا اور ڈالر کو مصنوعی طریقے سے مستحکم رکھا گیا تھا جس سے برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ آبی وسائل کے لیے مجموعی طور پر 69 ارب روپے، خوراک وزراعت کے لیے 12 ارب روپے، موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقدامات کیلئے 6 ارب روپے، سائنس و ٹیکنالوجی کے لیے 20 ارب روپے، قومی شاہراہوں کے لیے 118 ارب روپے، شعبہ صحت کے لیے 20 ارب روپے اور تعلیم کے لیے 30 ارب روپے مختص کی گئے ہیں۔
شناختی کارڈ کے بغیر خریداری کی حد ایک لاکھ روپے کرنے کی تجویز کردی گئی ،

عام دکانداروں سے سیلز ٹیکس کی شرح 12 فیصد کی تجویز ہے۔ درآمدی سگریٹ اور تمباکو پر ڈیوٹی 65 فیصد سے بڑھا کر 100 فیصد مقرر کر دی گئی ہے۔ شناختی کارڈ کے بغیر خریداری کی حد 50 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ روپے کرنے کی تجویز ہے جبکہ کورونا اور کینسر کی تشخیص کے آلات کی درآمد پر ڈیوٹی معاف کر دی گئی ہے۔ کیفین والی مشروبات پر شرح 13 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد جبکہ ڈبل کیبن گاڑیوں پر بھی ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی ہے۔

وزارت صحت کیلئے مجموعی طور پر چودہ ارب روپے مختص کرنے کی تجویز

آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں وزارت صحت کیلئے مجموعی طور پر چودہ ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ پمز میں دو سو بیڈ پر مشتمل حادثات اور ایمرجنسی سینٹر بنانے کا منصوبہ، کوئٹہ میں الرجی سینٹر اور اسلام آباد میں دو سو بیڈز پر مشتمل ہسپتال کی تعمیر کا منصوبہ، وزیراعظم کے پروگرام صحت سہولت پروگرام کیلئے چار ارب روپے، ای پی آئی پروگرام کیلئے دو ارب بیس کروڑ روپے، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان میں بہبود آبادی، ہیپاٹائٹس اور ٹی بی پروگراموں کیلئے فنڈز مختص کرنیکی تجویز دی گئی ہے۔

ہائیر ایجوکیشن کمیشن کیلئے ترقیاتی بجٹ کا حجم 29 ارب 47 کروڑ روپے تجویز

نئے بجٹ میں 94 جاری منصوبوں کیلئے ساڑھے چوبیس ارب روپے سے زائد فنڈز مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ایچ ای سی کیلیے پانچ ارب روپے مالیت کے 23 نئے منصوبے، 15.8 کروڑ روپے مالیت کا پاک یو کے نالج گیٹ وے کا منصوبہ، سمارٹ یونیورسٹیز فیز ون کیلئے ساڑھے 46 کروڑ روپے، سی پیک کنسورشیم آف یونیورسٹیز کے تحت اکیڈمک تعاون منصوبہ اور شمالی وزیرستان میں یونیورسٹی کے قیام کا منصوبہ بھی بجٹ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ منصوبے کی فیزیبلٹی سٹڈی کیلئے 75لاکھ روپے کے فنڈز بجٹ میں مختص کرنے کی تجویز جبکہ چترال اور تربت میں یونیورسٹیاں قائم کرنے کے منصوبے بھی نئے بجٹ میں شامل کر لیے گئے ہیں۔

مختلف ٹیکسز کے ذریعے 5 ہزار 464 روپے وصولیوں کا تخمینہ

وفاقی بجٹ میں آئندہ مالی سال میں مختلف ٹیکسز کے ذریعے 5 ہزار 464 روپے وصولیوں کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ایف بی آر کے ٹیکسز سے 4 ہزار 963 ارب روپے حاصل کرنے کا ہدف تجویز جبکہ ڈائریکٹ ٹیکسز سے 2 ہزار 43 ارب روپے حاصل ہونے کا تخمینہ ہے۔ انکم ٹیکس کی مد میں 2 ارب تین کروڑ روپے سے زائد، ورکرز ویلفئیر فنڈ سے تین ارب روپے سے زائد کے ٹیکسز، ان ڈائریکٹ ٹیکسز کی مد میں 2 ہزار 920 ارب سے زائد، کسٹمز ڈیوٹیز کی مد میں 640 ارب اور سیلز ٹیکس کی مد میں ایک ہزار 919 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

فیڈرل ایکسائز کی مد میں 361 ارب روپے، موبائل ہینڈ سیٹ لیوی کی مد میں پانچ ارب 80 کروڑ روپے، گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس سے 15 ارب روپے اور قدرتی گیس ڈویلپمنٹ سرچارج سے 10 ارب روپے وصولی کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ پٹرولیم لیوی کی مد میں ساڑھے چار سو ارب روپے وصول کئے جائیں گے۔

آٹو رکشا، موٹر سائیکل رکشا اور 200 سی سی موٹر سائیکلوں پر ایڈوانس ٹیکس ختم

وفاقی وزیر حماد اظہر نے بتایان کہ آٹو رکشا، موٹر سائیکل رکشا اور 200 سی سی تک کی موٹر سائیکلوں پر ایڈوانس ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے جبکہ بھاری فیسیں وصول کرنے والے تعلیمی اداروں پر 100 فیصد سے زائد ٹیکس عائد کر دیا گیا ے۔ دو لاکھ روپے سے زائد سالانہ فیس لینے والے تعلیمی اداروں کو 100 فیصد سے زائد ٹیکس دینا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کے تقاضوں کو بھی بجٹ میں مدنظر رکھا گیا۔ ایک سال میں بیرونی محصولات پر کسی قسم کا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔

وفاقی بجٹ 21-2020ء کے اہم نکات درج ذیل ہیں

ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4 ہزار 963 ارب روپے رکھنے کی تجویز

سول اخراجات کی مد میں 476 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز

احساس پروگرام کے لیے 208 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز

نیا پاکستان ہاؤسنگ کے لیے 30 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز

آئندہ مالی سال کا وفاقی ترقیاتی بجٹ 650 ارب روپے رکھنے کی تجویز

دیگر گرانٹس کی مد میں 890 ارب روپے رکھنے کی تجویز

صوبوں کو گرانٹ کی مد میں 85 ارب روپے فراہم کرنے کی تجویز

پنشن کی مد میں 470 ارب روپے رکھنے کی تجویز

سبسڈیز کی مد میں 210 ارب روپے رکھنے کی تجویز

وفاقی بجٹ خسارہ 3 ہزار 437 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز

مجموعی بجٹ خسارہ 3 ہزار 195 ارب روپے تجویز

اخراجات کا تخمینہ 7 ہزار 137 ارب روپے لگایا گیا ہے

وفاقی حکومت کا خالص ریونیو کا تخمینہ 3 ہزار 700 ارب روپے ہے

این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کے لیے 2 ہزار 874 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز

نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 1610 ارب روپے رکھنے کی تجویز

دفاعی بجٹ 1290 ارب روپے رکھنے کی تجویز

قومی اقتصادی سروے کی رپورٹ

اس سے قبل قومی اقتصادی سروے رپورٹ میں کورونا وائرس سے متعلق خصوصی باب بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ سروے کے مطابق وبا کے باعث ملک کی 56.6 فیصد آبادی سماجی اور معاشی لحاظ سے غیر محفوظ ہو گئی جبکہ ملک میں خواتین لیبر فورس کم ہو جائے گی۔

سروے رپورٹ کے مطابق خواتین اور بچوں کے سب سے زیادہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ وائرس کے باعث دوکروڑ 71 لاکھ افراد کے بیروزگار ہونے کا خدشہ ہے۔

جزوی لاک ڈاؤن میں زرعی اور غیر زرعی شعبے میں 1 کروڑ 55 لاکھ افراد بیروزگار ہونے کا خدشہ ہے۔ مکمل لاک ڈاؤن کی صورت میں ایک کروڑ 91 لاکھ افراد کی بیروزگار ہو سکتے ہیں۔

ہول سیل اور ریٹیل ٹریڈ میں زیادہ افراد کے بیروزگار ہونے کا خدشہ ہے۔ وائرس سے اوورسیز پاکستانیز کے بیروزگاری سے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں، سکولوں کالجزکی بندش سے خواتین کے بیروزگارہونے کا خدشہ ہے۔

کورونا وائرس کے باعث ملک میں خواتین لیبر فورس کم ہو جائے گی۔ ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کو دھچکا لگا۔ بجٹ خسارہ 9.4 فیصد تک پہنچنے کاخدشہ ہے جبکہ ملکی برآمدات متاثر ہوئی ہیں۔

ایک سال میں بھینسوں کی تعداد میں 12 لاکھ کا ہوا، بھینسوں کی تعداد 4 کروڑ سے بڑھ کر 4 کروڑ 12 لاکھ ہو گئی۔ ایک سال میں بھیڑوں کی تعداد میں 3 لاکھ کا اضافہ ہوگیا۔ بھیڑوں کی تعداد 3 کروڑ 9 لاکھ سے بڑھ 3 کروڑ 12 لاکھ ہوگئی۔

بکریوں کی تعداد میں 21 لاکھ کا اضافہ ہو گیا، بکریوں کی تعداد 7 کروڑ 61 لاکھ سے بڑھ کر 7 کروڑ 82 لاکھ ہوگئی، گھوڑوں، اونٹوں اورخچروں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔

گھوڑوں کی تعداد 4 لاکھ اور خچروں کی تعداد 2 لاکھ برقرار ہے، ملک میں اونٹوں کی تعداد 11 لاکھ ہے، مویشیوں کی تعداد 18 لاکھ کا اضافہ ہوا، مویشیوں کی تعداد 4 کروڑ 78 لاکھ سے بڑھ کر 4 کروڑ 96 لاکھ ہو گئی۔ ایک سال میں پولٹری کی تعداد میں 12کروڑ 20 لاکھ کا اضافہ ہوا۔

پولٹری کی تعداد ایک ارب 32 کروڑ 10 لاکھ سے بڑھ کر ایک ارب 44 کروڑ 30 لاکھ ہو گئی، گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ ہو گیا۔ گدھوں کی تعداد 54لاکھ سے بڑھ کر 55لاکھ ہوگئی۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس سے قبل اقتصادی ترقی کی شرح کا تخمینہ 3.3فیصد تھا، وباء کے بعد اقتصادی ترقی منفی 0.4 فیصد ہو گئی، کورونا سے زرعی، خدمات اور صنعتی شعبے کی ترقی متاثر ہوئی، سرمایہ کاری بھی متاثر ہوئی، تعلیمی اداروں میں جانے والے 4 کروڑ بیس لاکھ طلباء وطالبات براہ راست متاثر ہوئے۔

بڑے صنعتی شعبوں کی شرح نمو 5.4 فیصد کم ہوئی، معدنیات کے شعبے میں شرح نمو منفی 8.8 فیصد رہی، جولائی تا اپریل ٹیکس آمدن 3300 ارب روپے رہی، جولائی تا اپریل ٹیکس آمدن میں 10.8 فیصد اضافہ ہوا، نان ٹیکس آمدن جولائی تا مارچ 30 فیصد بڑھی، نان ٹیکس آمدن جولائی تا مارچ 1095 ارب روپے رہی۔

Leave a reply