بجٹ میں سے کیا اچھا نکلا؟ِ تحریر: نوید شیخ

0
54

بجٹ میں سے کیا اچھا نکلا؟ِ تحریر: نوید شیخ

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بجٹ غلط دعووں پر اور غلط اعدادوشمار پر مبنی ہے۔ البتہ اس میں عوام کے لیے کچھ ریلیف ہے۔ خامیوں کی تو ایک لمبی فہرست ہے اسکی مکمل تفصیل بھی بتاوں مگر کچھ اچھی چیزیں بھی ہیں وہ بتانا بھی ضروری ہے ۔

۔ سب سے پہلے آبی تحفظ کو بجٹ میں اہمیت دیتے ہوئے حکومت نے 91 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ جو گزشتہ سال کی نسبت 20 ارب زیادہ ہیں۔ اس سلسلے میں تین بڑے ڈیم داسو، دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کو ترجیح دی گئی ہے۔ یہ ایسے پروجیکٹس ہیں جو جب مکمل ہوگے تو یقیقناً اس کے ثمرات ملیں گے۔ ۔ متوقع امپورٹس 55 ارب ڈالرہیں جو پچھلی سال سے 6
سے 7ارب ڈالرزیادہ ہیں۔ بینکوں پر کیش ود ہولڈنگ ختم کرنا بھی صحیح قدم ہے۔

۔ موجودہ بجٹ میں چار سے چھ ملین گھرانوں کو نچلے طبقے سے اٹھایا جائے گا۔ اس سلسلے میں ہر شہری گھرانے کو پانچ لاکھ تک بغیر سود کے قرض دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسی طرح ہر کاشت کار گھرانے کو ہر فصل پر ڈیڑھ لاکھ روپے کا بغیر سود قرض فراہم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ٹریکٹر اور مشینری کے لیے بھی دو لاکھ کا بلا سود قرض دیا جائے گا۔ حکومت کی جانب سے ان سب گھرانوں کو اپنا گھر بنانے کیلئے بیس لاکھ روپے تک کے سستے قرضے فراہم کیے جائیں گے۔ ہاؤسنگ شعبے کیلئے حکومت کم آمدنی والے گھروں کو اپنا گھر خریدنے یا بنانے کیلئے 3 لاکھ سبسڈی ادا کرنا جاری رکھے گی۔ اس مد میں حکومت نے 33 ارب روپے سبسڈی کی مد میں رکھے ہیں۔اسی طرح سبسڈیز کا تخمینہ430 ارب روپے سے بڑھا کر682
ارب روپے کر دیا گیا ہے۔

۔ یہ بھی اچھی چیز ہے کہ کل سے کافی تنقید کے بعد حکومت نے فون کالز، ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ پر ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کر دیا ہے ۔۔ کم از کم اجرت بیس ہزار تک بڑھانے کا اقدام خوش آئند ہے حالانکہ مہنگائی کے حساب سے اس کو تقریباً ڈبل ہونا چاہیے تھا ۔ تاہم اس بیس ہزار اجرت پرعمل درآمد کس حد تک ہوتا ہے اسے دیکھنا پڑے گا۔۔ ابھی بھی بہت سارے غیر رسمی شعبے ہیں جو ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں اور شاید حکومت انہیں ٹیکس نیٹ میں لا کر اپنا ٹیکس زیادہ کرنا چاہتی ہے مگر ایسے اقدامات اس بجٹ میں دیکھائی نہیں دیے جس کے ذریعے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا جا سکے۔ مگر دوسری جانب دیکھا جائے تو جس قدر ریلیف دینے کی بات کی گئی ہے اس سے زیادہ عوام کی جیب سے نکالنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ پیٹرولیم منصوعات کی قیمتیں ہر پندرہ دن بعد ریویو ہوا کریں گی اور اس میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوگا جس کا اثر براہ راست عوام پر پڑے گا۔ سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ پیٹرولیم لیوی ہے جسے ہم بھتہ کہتے ہیں کیونکہ اس کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے اسے غلط قرار دیا تھا تو اس کا نام تبدیل کردیا گیا ہے ۔

۔ بنیادی طور پر یہ ٹیکس چوری کے حوالے سے لگایا جاتا ہے اور صوبوں کو اس میں حصہ نہیں ملتا۔ 2018میں یہ 150ارب روپے تھا جبکہ اس بجٹ میں آئندہ سال کے لیے 610ارب روپے کا پیٹرولیم لیوی کا ہدف رکھا گیا ہے جو عوام کے ساتھ کھلم کھلا زیادتی ہے اور جس سے واضح ہے کہ پیٹرول کے نرخ بڑھائے جائیں گے اور اس کے بعد اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ یہ بجٹ بنیادی طور پر عمران خان صاحب کے دس نکاتی ایجنڈے کے بھی یکسر متضاد ہے۔ انھوں نے دعوی کیا تھا کہ سو دنوں میں عدل و انصاف پر مبنی ٹیکسوں کی پالیسی نافذ کردیں گے۔ پیٹرولیم لیویز صفر اور جی ایس ٹی 17سے 7فیصد پر لے آئیں گے۔ آج کے بجٹ میں ان نکات کو سامنے رکھتے ہوئے حکومتی پالیسی کو دیکھا جائے تو صورتحال واضح ہوجاتی ہے۔ اس بجٹ میں 383 ارب روپے کے اضافی ٹیکسز عائد کیے گئے ہیں جن میں سے 70 فیصد ایسے ٹیکسز شامل ہیں جن کے نتیجے میں مہنگائی کے بڑھنے کے خدشات بھی ہیں۔ حالانکہ وزیر خزانہ شوکت ترین نے فنانس بل پیش کرنے سے ایک روز قبل ہی کہہ دیا تھا کہ ٹیکس لگیں گے نہ بجلی مہنگی ہو گی ۔ قوم کو بتانے کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ کہ آئی ایم ایف کی بات نہیں مانی۔

پر آپ دیکھیں ادارہ شماریات کے مطابق ہمارے ملک میں ”گدھوں“ کی تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کے باوجود ”گدھے“ اور بھی ہیں۔ لیکن ابھی بہت لوگ بچ گئے اور وہ اب مزید گدھا بننے کو تیار نہیں ہیں ۔ اس لیے جو شروع میں کہا تھا کہ یہ سب اعدادوشمار کا گورکھ دھندہ ہے ۔ شوکت ترین صاحب بھی یہی کام کررہے ہیں ۔ اس وقت تقریبا تمام اشیائے پر نئے ٹیکسز عائد کیے گئے ہیں یعنی چینی پر اب ریٹیل سطح پر نیا ٹیکس عائد کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں چینی کی قیمت میں فی کلو7 روپے اضافہ ہوگا جبکہ صنعت کاروں اور اسٹاک مارکیٹ سے وابستہ افراد پر کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اب جب سرکاری ملازمین کے تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ممبر اسمبلی اور سینیٹرز اپنے لیے کچھ نہ کرتے تو بڑی کفایت شعاری سے اس حکومت نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے بجٹ میں 100کروڑ سے زائد اضافہ کردیا گیا ہے ۔ اب پارلیمنٹ ہاؤس کے لئے مجموعی طور پر9 ارب سے زائد کا بجٹ رکھا گیا ہے۔ کاش جیسے ان کو اپنے مسائل کا ادراک ہے ایسے ہی عوام کے مسائل کا ادراک ہوتا تو چیزیں مختلف ہوتیں ۔ ہرحکومت یہی کہتی ہے کہ ہمیں تباہ شدہ معیشت ملی ۔ پھر آئی ایم ایف سے قرض لیتی ہے اور گروتھ ظاہر کرنا شروع کرتی ہے۔ مگر جب اگلی حکومت آتی ہے تو وہ پھر یہی راگ الاپتی ہے۔ یہ ساتویں حکومت ہے جو ایسا کررہی ہے۔ پاکستان کا المیہ ہے کہ حکمرانوں کے دعوؤں کے برعکس مہنگائی میں اضافہ اور افراط زر بھی بڑھا ہے ۔ ماضی کی حکومتوں میں بھی تر قی کے اعداد وشمار اور جی ڈی پی کی گروتھ بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی تھی ۔

ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری value added اور high techانڈسٹری میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ لے دے کر real state اور construction انڈسٹری پر زور ہے جس کی مدد سے چالیس انڈسٹریز میں انقلاب کا گمان ہے۔ دنیا بہت تیزی سے بدل گئی ہے اور بدل رہی ہے۔ ہم اپنی معیشت کو اگر دنیا کے value added اور high techتقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کریں گے۔ خود پسندی کے خول سے نہیں نکلیں گے تو ہمیں ہر سال آئی ایم ایف کی ضرورت پڑتی رہے گی اور ہم ہر بجٹ پر یہی سنتے رہیں گے کہ غریب اور تنخواہ دار طبقے پر مزید بوجھ نہیں ڈالا جائے گا اور یہ کہ متبادل پلان دے دیا ہے۔ میرے حساب سے مسلم لیگ (ن) کے دور میں پیش ہونے والے بجٹ اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ یہ بجٹ بھی سیٹھوں کے لیے ہے اور غر یب آدمی مسلسل پٹے گا ۔ اس بجٹ میں بھی وہی مجبوریاں اور وعدے شامل ہیں جو سالہا سال سے پیش ہونے والے budgets کا حصہ رہے ہیں۔ ۔ عجیب قحط کا دور ہے، قحط محض یہ نہیں ہوتا کہ اناج نہ ہو،فصل نہ ہو ۔ دراصل قحط وہ ہے کہ اللہ کی تمام نعمتوں کی فراوانی ہو مگر انسانوں کی پہنچ میں نہ ہوں۔ آج ہرکھانے، پینے ، اوڑھنے والی چیزوں کے انبار لگے ہیں مگر لوگوں کی پہنچ سے دور ہی نہیں ناممکن ہیں۔ بجٹ دنیا بھر کے ملکوں میں سال میں ایک بار آتا ہے۔ ہمارے ہاں سالانہ بجٹ کے بعد ماہانہ اور پھر روزانہ بجٹ آتا ہے۔ جتنے معاشی تجزیہ کار ہیں سب کے سب حقیقت کے برعکس تجزیے کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ تندرست ہی کیا جو اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہو سکے۔ وہ معاشی تیزی ہی کیا جس میں زندگی تو زندگی موت بھی مہنگی ہو جائے۔ دراصل پاکستان کے عوام ، وسائل اور اکثریت کو انتہائی اقلیت نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ بس آزادی ہے تو قانون شکنوں اور بدعنوانوں کو ورنہ ہر طرف قحط کا راج ہے۔ قانون کی حکمرانی کا، اخلاقیات کا قحط ، انسانی اقدار کا قحط ، مثبت سوچ کا قحط حتیٰ کہ انسانیت کا قحط اور آزادی کا قحط ہے۔ جب پولیس کسی شخص سے پرسنل ہو، حکمران پرسنل ہوں جہاں انصاف کرتے ہوئے عدالت اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھے وہاں معاشرت کی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

Leave a reply