عجیب فلمی منظر نامہ ہے کہ چیف سیکرٹری پنجاب زاہد زمان کے دور میں چند ”بلیو آئیڈ“ ایک سے بڑھ کر ایک اہم سیٹ پرنوازے جاتے ہیں تو دیگر ایک ہی سیٹ پر کھڈے لائن ہیں تو کچھ ناکردہ گناہوں کی سزا پر او ایس ڈی”گل سڑ“رہے ہیں۔پک اینڈ چوز کی وجہ سے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس اور پی ایم ایس سمیت کوئی بھی مطمئن نہیں ہے سوائے ان کے جن کو آؤٹ دی وے جا کر نواز ا گیا۔ میڈم وزیراعلیٰ محکمہ تعلیم سمیت چند محکموں میں جو ظلم، لاقانونیت اور من مرضی کا گندہ کھیل ہورہا ہے اس کی تحقیقات کیلئے ایف آئی اے اور نیب کی خدمات لی جائیں۔ کرپٹ افسران نے ستھرا پنجاب جیسے فلیگ شپ پروگرام کو مال لوٹنے کا زریعہ بنایا ہوا ہے.

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے بیوروکریسی میں سیاسی مداخلت کے خاتمے کے مشن امپاسل کو پاسیبل کر دکھایا لیکن چیف سیکرٹری میرٹ کے”سپنوں“ کی دنیا دکھا کر ”پک اینڈ چوز“ کر رہے ہیں۔ آئی جی پنجاب عثمان انور 43کامن کے تین افسران کو ڈی پی او لگاچکے ہیں، عثمان انور نے ایک طرف 35کامن کا ڈی پی او لگایا ہے تو دوسری طرف 43کامن،سنئیر اور جونئیرز کا کمبینیشن دانشمندانہ فیصلہ ہے، لیکن 43کامن والوں کو چھوٹے اضلاع میں موقع دینا چاہئے تھا۔ یہی اصول ہوتا ہے کہ اہم اضلاع میں گریڈ 19کے سنئیر جبکہ چھوٹے اضلاع میں گریڈ 18کے جونئیر افسران کو ڈی سی اور ڈی پی او لگایا جاتا ہے۔

پی ایم ایس 5کا پہلا ڈپٹی کمشنر 2022میں لگا تھا اس کے بعد زاہد زمان نے پی ایم ایس 5کیلئے ڈی سی شپ شجر ممنوع قرار دے دی۔انصاف کا ترازو اس بات کا متقاضی ہے کہ پی ایم ایس 5 اور پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس 43،44کامن کے افسران کو چھوٹے اضلاع میں کمانڈ کا موقع دینا چاہئے۔ بیوروکریٹک گتھی الجھانے کی مہارت میں معراج حاصل کرنے والے چیف سیکرٹری نے ایک طرف ڈپٹی کمشنرز کیلئے خود ساختہ میرٹ اور بیرئیر لگادیے ہیں کہ42کامن تک ڈی سی لگائے جائیں گے جبکہ سجی دکھا کر کھبی مارنا کے مترادف گریڈ بیس لیول کی اربوں کھربوں روپے والی، CEO IDAP, CEO PECTAA ، پراجیکٹ ڈائریکٹر ورلڈ بینک سمیت اہم سیٹوں اور اٹھارٹیز پر 42,43,44کامن کے کنسیپٹ کلئیر بچوں کو لگادیا ہے۔ اسی طرح چند گریڈ 19 والوں کو گریڈ 21 کی سیٹوں پر آل ان آل بنا دیا گیا۔

تیرا کھانواں تیرے گیت گانواں کے مصداق یہ جونئیر افسران سنئیر سیٹوں پر صاحب کا ہر حکم بجا لاتے ہیں۔
بیوروکریسی میں گریڈ18والے کو 20 کی سیٹ پر نوازنے کا اگر عدلیہ سے موازنہ کیا جائے تو ایسے ہی ہے کہ کسی سول جج کو سنئیر سول جج بھی نہیں ڈائریکٹ ایڈیشنل سیشن جج لگا دیا جائے۔ اگر آرمی سے موازنہ کیا جائے تو ایسا ہی ہے جیسے کسی میجر کو یونٹ یا ونگ بھی نہیں سیدھا برگیڈ کمانڈر لگا دیں۔ لیکن آرمی کی پوری تاریخ میں آپ کو ایسی ایک مثال بھی نہیں ملتی کہ جہاں کسی کو خلاف میرٹ تقرری دی گئی ہو۔ آرمی کے عزت و وقار اور دنیا بھر میں نمبر ون فوج ہونے کی ایک ہی وجہ ہے کہ وہاں میرٹ ہے۔ ہر کسی کو معلوم ہے کہ اسے وہی پوسٹنگ ملے گی جس کا وہ اہل ہے۔

اس وقت پنجاب میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس اور پی ایم ایس کے گریڈ 18سے گریڈ 21تک کے 66افسران OSD ہیں۔سنئیر سیٹوں پر جونئیر افسران تعینات ہیں۔ اپنے جونئیر کے ماتحت پوسٹنگ ملنے کی وجہ سے افسران شدید پریشان ہیں اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔ key Posting والے احساس برتری کی وجہ سے اور OSD رہنے والے احساس کمتری میں مبتلا ہو کر دونوں نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔ خلاف میرٹ ٹرانسفر پوسٹنگ اور تعیناتیوں نے افسران کے درمیان نفرت کی ایسی لکیر کھینچی کہ بیچ میٹ ہی بیچ میٹ کا دشمن بنا ہوا ہے اور ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی دنیا بہت چھوٹی ہے،خاص طور پر بیچ میٹس کو ایک دوسرے کے انڈرٹریننگ دور کے حالات، غربت اور لاچاری کا بہت اچھے سے معلوم ہوتا ہے۔

”گینگ آف سیون” کے بیوروکریٹک مارشل نے جہاں حکومت سے عوام کا اعتماد خراب کیا وہیں سینکڑوں افسران بھی شدید تحفظات کا شکار ہیں۔ "گینگ اف سیون” کا کمال ہے کہ وہ افسران جو اخلاقی اور مالی لحاظ سے بدنام زمانہ کرپٹ ترین ہیں، بزدار اور پرویز الٰہی دور کے بڑے بینیفشریز تھے انکو اہم ترین سیٹوں پر لگایا ہوا ہے۔
عوامی اعتماد اور کرپشن کے خاتمے کیلئے چند افسران کو پنجاب سے نکالنے اور بیوروکریسی کی ری شفلنگ ناگزیر ہے۔ بیرونی فنڈنگ والی تمام سیٹوں کا آڈٹ کروایا جائے کیونکہ زبان زد عام ہے کہ وہاں حصے بانٹے جاتے ہیں۔ دسمبر 2022سے سیکرٹری فنانس کی سیٹ پر آل ان آل مجاہد شیر دل پنجاب کی ٹرانسفر پوسٹنگ کا اہم ترین ستون ہیں۔زبان زد عام ہی نہیں گزشتہ تین سال کی ٹرانسفر پوسٹنگ دیکھ لیں اہم ترین سیٹوں پر آنے اور جانے کیلئے فنانس ڈیپارٹمنٹ اور سیکرٹری فنانس ”راستہ“ ہیں۔سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے گزارش ہے افسران کی روٹیشن پالیسی پر بھی عمل درآمد کروایا جائے بہت سے لاڈلے برسوں سے پنجاب چھوڑنے کو تیار نہیں تو لاتعداد سندھ کی کنسیپٹ کلئیر نوکری اور چاکری میں مصروف ہیں چند جبری بلوچستان کاٹ رہے ہیں۔

Shares: