”سدا بہار افسر“
’باس از آلویز رائٹ اور یس باس“ کی تسبیح کرتے یہ افسران سنئیر افسران، وزراء اور چیف منسٹر کے درباری بنے ہوتے ہیں۔ جی حضوری کے چیمپئین ہونے کی وجہ سے ہر حکومت میں ”فٹ“ ہو جاتے ہیں اور من مرضی کی پوسٹنگ لیتے ہیں۔ یہ باس اور طاقتور کے سامنے لیٹ جاتے ہیں مگر ماتحت اور عام لوگوں کے سامنے انتہائی سخت گیر۔

”ٹک ٹاکر افسران“
ان کی مثال ”جِنا لُچا اونا اُچا“ والی ہے جو جتنا زیادہ قانون شکن، کرپٹ اور واحیات ہوتا ہے وہ سوشل میڈیا پر اتنا زیادہ اچھا دکھنے کی ایکٹنگ کرتا ہے بلکہ اگر صحیح تشریح کی جائے تو ان افسران میں لُچے اور ٹُچے والی دونوں خصوصیات پائی جاتی ہیں. پہلے افسران اپنی عظیم الشانی کی وجہ سے مشہور ہوتے تھے اب ذلیل الشانی سے۔
ٹک ٹاکر افسران کی ذلیل ترین قسم والے افسران کی ویڈیو سامنے آتے ہی منہ سے بے ساختہ گالیاں نکل جاتی ہیں کیونکہ یہ اس قدر بے حس اور غیرت سے عاری ہوچکے ہیں کہ اپنی ویڈیو ایکٹنگ کیلئے معزز شہریوں کی پرائیویسی خراب کر رہے ہوتے ہیں۔

سستے ایکٹر:
اکثر دفتر اور سرکاری گاڑی کی ویڈیوز لگاتے ہیں تو کبھی انصاف کی بروقت فراہمی کی فیک اور پلانٹڈ ویڈیوز اپلوڈ کرتے ہیں۔
ایسے افسران اپنی سستی ایکٹنگ سے ناصرف اپنا گھٹیا پن ثابت کرتے ہیں بلکہ افسری کو داغدار کرتے ہوئے ساری سول سروس کیلئے گالی بنے ہوتے ہیں۔ تمام مرد افسران کی سستی ایکٹنگ اتنی بری اور گھٹیا نہیں ہوسکتی جتنی چند خواتین افسران خاص طور پر خواتین پولیس افسران کی ہے۔ خواتین افسران تو باقی خواتین کیلئے قابل تقلید حد تک مہذب ہوتی تھیں لیکن نئی افسران نے شوبز انڈسٹری کو پیچھے چھوڑ دیا۔

مجبور ٹک ٹاکر:
کچھ افسران پہلے والی اقسام کی اوورایکٹنگ اور سنئیرز کی ڈیمانڈ کے ہاتھوں مجبور ہوکر بھی ٹک ٹاکر بنے ہوئے ہیں کہ اگر ویڈیوز نہ بنائی تو سیٹ چھن جائے گی۔

”ادیب افسر“
پہلی بات تو یہ ہے کہ سرکاری افسر کا ادیب ہونا کوئی فخر والی بات نہیں ہے اسے جس کام کیلئے سرکار نے بھرتی کیا ہے وہی کرنا چاہئے۔ادب کا سہارا لینے والوں میں اکثریت نہ ادیب ہوتے ہیں اور نہ اچھے افسر۔

کاروباری افسرگروپ:
یہ اپنی سرکاری نوکری اور عہدوں کے مطابق جس محکمے میں بھی جاتے ہیں وہاں کاروباری لائن سیدھی کرلیتے ہیں۔ یہ اپنے مخصوص کاروباری گروپ کے علاوہ نہ تو کسی کی سفارش مانتے ہیں اور نہ ہی کوئی لین دین کرتے ہیں۔

”دیانت دار افسر“
افسروں کی ایک ناپید قسم ہے، انہیں زیادہ تر کھڈے لائن پوسٹنگ ہی ملتی ہے، کبھی یہاں کبھی وہاں ”رولر کوسٹر“ کی طرح دھکے کھاتے رہتے ہیں۔جب ہر طرف پیسوں کی لین دین سے پوسٹنگ کا بازار گرم ہوتا ہے تو چیف سیکرٹری اور آئی جی حضرات ایسے دو، چار ایماندار افسران کو بھی پوسٹ کردیتے ہیں تاکہ یہ کہہ سکیں کہ اگر میرٹ پر پوسٹنگ نہیں ہورہی تو فلاں افسرکا تو سب کو پتا ہے کہ انتہائی دیانتدار ہے وہ کیسے لگ گیا۔

”کنسیپٹ کلئیر افسران“
ایسے افسران کا مائنڈ سیٹ کلئیر ہوتا ہے کہ دونوں ہاتھوں سے اور جھولیاں بھر بھر کے سمیٹنا ہے۔شدید کرپٹ ہونے کی وجہ سے کسی کی کال رسیو نہیں کرتے کہ کہیں کسی سفارشی کال پر مفت میں کام نہ کرنا پڑ جائے۔ سگے باپ کی بھی بات نہیں مانتے جبکہ اپنے ٹاؤٹ کی کال کہیں بھی کسی بھی حالت میں فوراً سے پہلے رسپانس کرتے ہیں۔

بچے افسران:
بیوروکریسی میں بچہ کلچر عام اور زبان زد عام ہوچکا ہے کہ یہ فلاں افسر کا بچہ ہے۔ فلاں کا کماؤ پتر اور فلاں کا ”پلاؤ پتر“ہے۔بچے بننے کے مختلف مراحل ہے کمائی کے لحاظ سے کماؤ بچوں کی اکثریت بطور سیکشن آفیسر اور سب رجسٹرار کلک ہوتے ہیں۔ کنسیپٹ کلئیر افسران ان سیٹوں پر سنئیر افسران کے مُنشی بن کر پیسہ اکٹھا کرتے ہیں اور یوں صاحب کا بچہ بن جاتے ہیں اور سارا کیرئیر اس سنئیرز کا بچہ بن کر گزار دیتے ہیں وہی سنئیر نہ صرف اس کیلئے پوسٹنگ مینج کرتا ہے بلکہ شیلٹر بھی فراہم کرتا ہے۔ سنئیر افسر اور بچہ دونوں جہاں بھی بیٹھیں گے ایک دوسرے کے سو کالڈ کارنامے اور فضائل بیان کریں گے۔

جو افسران جونئیر لیول پر کلک نہیں ہوتے جب گریڈ 18اور انیس میں سسٹم کو سمجھ لیتے ہیں تو جس آفسر کا دامن وہ بچہ بن کر تھامتے ہیں وہ پھر اس کو پوسٹنگ کیلئے ایسے انٹرڈیوس کرواتا ہے کہ سر آپ کو دی بیسٹ بچہ دے رہا ہوں، قابل اور ”ریاضی“ کا ماہر ہے لیکن کمٹمنٹ کا پکا ہے اُس کی طرح نہیں کہ ہر جگہ منہ مارتا ہے۔ بیوروکریسی کے بچہ کلچر میں اس بات کو معیوب بھی سمجھا جاتا ہے انکا بچہ ہر کسی کا بچہ نا بنے، بلکہ ”لو پروفائل” اور ”نان سوشل” رہنا ہے تاکہ بچہ کوئی غلطی نہ کرجائے، بچے تو بچے ہوتے ہیں بعض اوقات نہ بتانے والی بات بھی منہ سے نکال دیتے ہیں اس لیے بچے کو جتنا سنبھال کے رکھا جاسکتا ہو رکھا جاتا ہے۔
چالیس پینتالیس سال کا افسر بھی بچہ کہلانا فخر محسوس کرتا ہے۔
بات صرف اتنی ہے جب بچہ بننا فائدے کا سودا ہو تو پھر بچہ بننا اور کہلانا فخر اور شیلٹر محسوس کرتے ہیں۔ جس قدر تیزی سے یہ بچہ کلچر پروان چڑھ رہا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ بیوروکریسی کی عزت اور وقار بالکل ختم ہوجائے اور ہر کوئی بچہ بننے اور کہلانے کی ڈور میں لگ جائے۔

Shares: