برطانیہ میں سیاہ فام ابھی تک دوسرے درجے کے شہری ہیں
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں سیاہ فام ابھی تک دوسرے درجے کے شہری ہیں
اسٹیفن لارنس کے والد نے کہا ہے کہ سیاہ فام لوگوں کو اب بھی نہ صرف برطانیہ میں بلکہ پوری دنیا میں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔
نیویل لارنس کا کہنا تھا کہ ان کا خیال ہے کہ برطانوی پولیس چھ سال قبل اس کے بیٹے کے قتل کی تحقیقات میں ناکامی اور وعدے کے باوجود تحقیقات مکمل نہ کرنا اس کے ہیچھے نسل پرستی ہی ہے
18 سالہ اسٹیفن کے قتل کے بعد ہونے والی تفتیش اور تحقیقات کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ میٹرو پولیٹن پولیس ادارہ جاتی نسل پرستی کا شکار ہے
کمشنر کریسڈا ڈک نے پچھلے سال اعلان کیا تھا کہ اب یہ معاملہ نہیں رہا اور اس نے زور دیا کہ اس کی فورس "بالکل مختلف میٹروپولیٹن پولیس” ہے ،لیکن مسٹر لارنس نے دی گارڈین کو بتایا: "میں اس سے پوری طرح متفق نہیں ہوں۔” سیاہ فام لوگوں کو غیر ضروری پولیس کی جانب سے روکنے کے ہتھکنڈوں کے استعمال کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا: "ہاں ، پولیس ادارہ جاتی طور پر نسل پرست ہے۔”
مسٹر لارنس کے تبصرے اس وقت سامنے آئے جب میٹ کے اسسٹنٹ کمشنر نے اپنے ساتھی افسران سے "نسل پرستانہ افراد کے سامنے ڈٹ جانے ، عدم مساوات اور ناانصافی” پر زور دیا۔
اپنے برطانیہ کے ساتھیوں کو ایک کھلے خط میں ، نیل باسو نے کہا کہ ہم کتنے دور پہنچ چکے ہیں اس کے باوجود ہمیں اس حقیقت کا مقابلہ کرنا ہوگا کہ اپنی بہت سی برادریوں خصوصا سیاہ فام برادری کے ساتھ ، ہمیں ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے
امریکا اور برطانیہ سمیت دنیا بھر میں نسلی تعصب اور پولیس تشدد کے خلاف گزشتہ دو ہفتوں سے مظاہرے جاری ہیں تاہم اب نسل پرست برطانوی شہریوں نے بھی مظاہرے شروع کردئیے ہیں۔ نسل پرستانہ مظاہرہ گزشتہ روز برطانوی شہر ہارٹفورڈشائر میں اس وقت شروع ہوا جب ہوڈسڈن کلاک ٹاور کے مقام پر سیاہ فام شخص کی امریکی پولیس کے تشدد سے ہلاکت اور نسلی امتیاز کے خلاف احتجاج جاری تھا۔
تین سو قریب مظاہرین احتجاج کررہے تھے کہ اچانک انہیں نسل پرستوں کے بڑے مظاہرے کا سامنا کرنا پڑا جن کی بڑی تعداد سفید فام مردوں پر مشتمل تھی، جو ’اپنا منہ بند کرو اور واپس افریقہ جاوٗ‘ کے نعرے لگارہے تھے۔ برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ نسلی امتیاز کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ایک شخص نے نسل پرست سفید فام برطانوی کو نازی سلام کرتے بھی دیکھا۔
مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جائے وقوعہ پر موجود پولیس اہلکار بھی نسل پرست برطانوی شہریوں کو روکنے میں ناکام رہے۔ سفید فام نسل پرستوں نے ہوڈسڈن میں جنگ عظیم دوئم کی یادگار کے دفاع میں ریلی نکالی تھی کیونکہ اتوار کے روز سطی لندن میں ونسٹن چرچل کے مجمسے کو زمین بوس کردیا گیا تھا
امریکا کے بعد برطانوی شہریوں نے بھی سفید فام نسلی امتیاز اور غلاموں کی تجارت کی یادگاروں، مجسموں کو ختم کرنے اور مقامات کے نام تبدیل کا مطالبہ کیا ہے
لندن کے میئر صادق خان نے دارالحکومت میں ایسے مقامات جن کے نام نسلی امتیاز کو فروغ دیتےہیں یا غلاموں کی تجارت کی یاد تازہ کرتے ہیں کا جائزہ لینے کےلیے ایک کمشین تشکیل دے دیا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق صادق خان نے یہ فیصلہ نسلی تعصب کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کی جانب سے اتوار کو برسٹل میں غلاموں کی تجارت کرنے والی ایڈورڈ کولسٹن کے مجسمے کو گرانے بعد کیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ امریکا کے بعد برطانوی مظاہرین نے بھی ملک بھر سے ایسے مجسمے اور یادگاریں ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس سے سفید فام نسلی امیتاز کو بڑھاوا ملتا ہے اور غلاموں کی تجارت کی یاد تازہ ہوتی ہے۔
خیال رہے کہ برطانیہ میں سیاہ فام امریکی کے قتل کے خلاف جاری مظاہروں کے دوران سفید فام برطانوی شہریوں نے بھی احتجاج کرتے ہوئے ’واپس افریقہ جاوٗ‘ کا نسل پرستانہ نعرہ لگایا ہے