گداگری کی آڑ میں کاروبار اور جرائم

گداگری کی آڑ میں کاروبار اور جرائم

ازقلم غنی محمود قصوری
آج کل کچھ عرصے سے بڑے شہروں میں چوک چوراہوں پر ایک عجیب منظر دیکھنے کو مل رہا ہے جہاں نقاب پوش عورتیں اپنے ساتھ چھوٹے معصوم بچوں کو لیے بھیک مانگتی ہیں۔ گاڑی یا موٹر بائیک کے اشارے پر رکتے ہی یہ عورتیں درد مندانہ انداز میں اللہ رسول کے واسطے دے کر آپ سے پیسے نکلوانے کی کوشش کرتی ہیں۔ آپ نا چاہتے ہوئے بھی انکار نہیں کر پاتے کیونکہ ایک معصوم بچہ، جو عورت کی گود میں ہوتا ہے، آپ کے دل میں ہمدردی اور ترس پیدا کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹے بچے اپنے پھیلے ہاتھوں کے ساتھ بھیک مانگنے پر مجبور کرتے ہیں۔

یہ ایک عام منظر بن چکا ہے کہ اکثر ان عورتوں کا حلیہ، لباس اور بات کرنے کا انداز بتاتا ہے کہ وہ پیشہ ور بھکاری ہیں، اور بعض تو فل میک اپ میں بھی نظر آتی ہیں۔ ان کی چپل، عبایا اور دیگر لوازمات برانڈڈ ہوتے ہیں، جو اس بات کی علامت ہیں کہ یہ مجبوری کے تحت بھیک مانگنے والی نہیں بلکہ منظم بھکاری ہیں۔ بیشتر عورتوں کی عمر 25 سال سے بھی کم ہوتی ہے، جو ایک منظم نیٹ ورک کا حصہ معلوم ہوتی ہیں۔

اسلام نے جہاں نماز، روزہ اور دیگر فرائض کی ادائیگی پر زور دیا ہے، وہاں صدقہ و خیرات کا بھی خاص حکم دیا ہے۔ اسلام نے اہل و مستحقین کو صدقہ و خیرات کا اصل حقدار قرار دیا ہے، اور پہلا حق آپ کے قریبی رشتہ داروں، گلی محلے کے لوگوں اور خاندان والوں کا ہے۔ اگر آپ ان لوگوں کو ان کا حق ادا نہیں کرتے اور دوسروں کو صدقہ دیتے ہیں تو آپ اللہ کی رحمت کے طلبگار نہیں بن سکتے۔

آج کے دور میں گداگری نہ صرف ایک پیشہ بن چکی ہے بلکہ یہ جرائم کے ساتھ جڑ چکی ہے۔ بھکاریوں کے پیچھے موجود مافیا ان عورتوں اور بچوں کا استعمال کرتا ہے اور ان سے بھیک منگواتا ہے۔ بھیک مانگنے کے بہانے بعض عورتیں جسم فروشی جیسے غیر قانونی کاموں میں بھی ملوث پائی گئی ہیں۔ ڈکیت گینگز بھی ان عورتوں کو جاسوسی اور سہولت کاری کے لیے استعمال کرتے ہیں، جو معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتی ہیں۔

یہ سچ ہے کہ کچھ عورتیں مجبوری میں یہ کام کر رہی ہوں گی، مگر بہت سی خواتین کو ان کے نشے کے عادی شوہر یا والدین اس کام پر مجبور کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟

پنجاب حکومت نے اس مسئلے کے حل کے لیے حال ہی میں The Punjab Vagrancy Ordinance 1958 میں ترامیم کی ہیں۔ ان ترامیم کے مطابق بچوں سے بھیک منگوانے والے مافیا کے سرغنہ کو 5 سے 7 سال قید اور 5 لاکھ سے 7 لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوگی۔ یہ قانون سازی ایک بہترین قدم ہے اور اس پر فوری عملدرآمد کی ضرورت ہے تاکہ پیشہ ور بھکاریوں کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اصل مستحقین کو ان کا حق پہنچایا جائے۔

اس کے علاوہ، چوراہوں میں بھیک مانگنے والی عورتوں کو دارالامان بھیج کر تفتیش کی جائے کہ آیا ان کے ساتھ موجود بچے ان کے اپنے ہیں یا کہیں وہ اغوا شدہ تو نہیں؟ ایک عرصے سے یہ انکشاف ہو رہا ہے کہ شیر خوار بچے اغوا ہو کر بیرون ملک فروخت کیے جا رہے ہیں۔ اس مافیا کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے اور ان عورتوں کو ہنر سکھا کر معاشرے کا کارآمد فرد بنایا جائے، جو کہ اسلامی ریاست کی اہم ذمہ داری ہے۔

Leave a reply