سندھ میں نہروں کا تنازعہ،ذوالفقار بھٹو جونیئر کی ماحولیاتی آواز اور سیاسی رسہ کشی
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفیٰ بڈانی
پاکستان کا زرعی مستقبل اور معاشی استحکام اس کے پانی کے وسائل سے جڑا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ وسائل نہ صرف تیزی سے کم ہو رہے ہیں بلکہ سیاسی تنازعات کی نذر بھی ہو رہے ہیں۔ سندھ میں دریائے سندھ سے چھ نہروں کے مجوزہ منصوبے نے ایک ایسی بحث کو جنم دیا ہے جو پانی کی تقسیم، صوبائی خودمختاری اور سیاسی بیانیوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ اس تناظر میں ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کی ماحولیاتی سرگرمیاں اور پیپلز پارٹی کی متضاد پوزیشننگ نے اس بحران کو ایک نیا رنگ دیا ہے۔ اس کالم میں موجودہ پیچیدہ صورتحال کو ایک نئے زاویے سے روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے، جہاں ماحولیاتی تحفظ، سیاسی حکمت عملی اور عوامی مفادات کا ٹکراؤ واضح ہوتا ہے۔
سندھ کی زمینوں کی زرخیزی کا دارومدار دریائے سندھ کے پانی کی مرہون منت ہےجو آج پانی کی قلت اور تقسیم کے مسائل سے دوچار ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے اس صوبے کے ماحولیاتی مسائل کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ نہ صرف آلودگی اور جنگلات کی کٹائی جیسے موضوعات پر بات کرتے ہیں بلکہ اب پانی کی تقسیم اور نہروں کے منصوبے کو ماحولیاتی نقطہ نظر سے جوڑ کر ایک نیا بیانیہ تشکیل دے رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ چھ نہروں کا منصوبہ سندھ کے پانی کے حصے کو کم کر کے زرعی معیشت اور ماحولیاتی توازن کو خطرے میں ڈالے گا۔ ان کی سرگرمیوں نے کسانوں، ماہی گیروں اور دیہی کمیونٹیز کے مسائل کو قومی سطح پر پیش کیا ہے جس سے نہروں کے خلاف بننے والا بیانیہ مضبوط ہوا۔
دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی جو سندھ کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے اس تنازع میں اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ پارٹی نے ابتدا میں نہروں کے منصوبے کی موجودگی سے ہی انکار کیا لیکن جب عوامی دباؤ بڑھا تو اس نے موقف بدل کر نہروں کی مخالفت شروع کر دی۔ تاہم اس کوشش کو عوام نے شک کی نگاہ سے دیکھا کیونکہ پارٹی کی قیادت وفاقی اتحاد کا حصہ ہے۔ یہ تاثر عام ہے کہ پیپلز پارٹی نے سیاسی فوائد جیسا کہ بلاول بھٹو کی ممکنہ وزارتِ عظمیٰ کے لیے سندھ کے پانی کے حقوق پر سمجھوتہ کیا۔ یہ الزامات پارٹی کی ساکھ کے لیے خطرناک ہیں خاص طور پر جب سندھ کے ووٹرز روایتی طور پر وڈیروں اور جاگیرداروں کی وفاداری پر ووٹ دیتے رہے ہیں نہ کہ پارٹی کے نظریے پر۔
چھ نہروں کا تنازع محض پانی کی تقسیم کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ صوبوں کے درمیان اعتماد کی کمی اور سیاسی عزائم کا کھیل بنتا جارہاہے۔ وفاقی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ نہریں پسماندہ علاقوں میں زرعی ترقی لائیں گی لیکن سندھ کے لوگ اسے اپنے حصے کے پانی پر ڈاکہ قرار دیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اس بیانیے کو وفاق اور پنجاب کے خلاف موڑنے کی کوشش کی لیکن اس میں کامیابی نہیں ملی۔ عوام یہ سمجھتی ہے کہ پیپلزپارٹی وفاق میں سندھ کا کیس مؤثر طریقے سے پیش نہیں کر سکی۔ اس سے پارٹی کی ساکھ کو دھچکا لگا ہے اور خاص طور پر جب تحریک انصاف جیسی جماعتیں اس تنازع کو اپنے حق میں استعمال کر رہی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں نہروں کے خلاف قرارداد پیش کرنے کی کوشش کی لیکن ناکامی نے اس کی کمزوری کو اجاگر کیا۔ اگر پارٹی تحریک انصاف کی پیش کردہ قرارداد کی حمایت سے گریز کرتی ہے تو اسے سندھ میں سیاسی طور پر بھاری قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔ یہ صورتحال اس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ پارٹی اب بلاول بھٹو تک پہنچتے پہنچتے اپنی تاریخی افادیت کھو چکی ہے۔ ماضی میں سندھ اور پنجاب میں اس کا بیانیہ یکساں تھا لیکن اب وہ اسے اپنے انداز میں ڈھالنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔
پانی کا بحران پاکستان کے لیے ایک وجودی خطرہ ہے اور اس کا حل سیاسی تنازعات سے بالاتر ہو کر تلاش کرنا ہوگا۔ ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کی ماحولیاتی سرگرمیاں اس بحران کو حل کرنے کے لیے ایک نئی سمت دکھاتی ہیں، جہاں پانی کی تقسیم کو ماحولیاتی تحفظ اور پائیدار ترقی سے جوڑا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کو چاہیے کہ وہ اپنی سیاسی حکمت عملی پر نظرثانی کرے اور سندھ کے عوام کے مفادات کو ترجیح دے۔ وفاقی حکومت کو تمام صوبوں کے تحفظات دور کرنے کے لیے شفاف مذاکرات کرنے ہوں گے۔
اس کے علاوہ پاکستان کو جدید آبپاشی نظام، ڈیموں کی تعمیر اور پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ بھاشا اور مہمند ڈیم جیسے منصوبوں کو سیاسی تنازعات سے بچا کر مکمل کیا جائے۔ صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے معاہدوں پر عمل درآمد کے لیے ایک مضبوط نگرانی کا نظام بنایا جائے۔ سب سے بڑھ کر عوام کو اس عمل میں شامل کیا جائے تاکہ وہ اپنے وسائل کے تحفظ میں کردار ادا کر سکیں۔
سندھ کا پانی صرف ایک صوبے کا مسئلہ نہیں ہےبلکہ پاکستان کی زرعی اور معاشی بقا کا سوال ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کی سرگرمیاں اس بحران کو ماحولیاتی تناظر میں پیش کر کے ایک نئی امید جگاتی ہیں لیکن پیپلز پارٹی کی سیاسی ناکامیاں اسے پیچیدہ بنا رہی ہیں۔ اگر اس تنازع کو قومی اتفاقِ رائے سے حل نہ کیا گیا تو نہ صرف سندھ بلکہ پورا پاکستان پانی کی قلت کے سنگین نتائج بھگتے گا۔ وقت آ گیا ہے کہ سیاسی عزائم کو پس پشت ڈال کر پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک متحدہ حکمت عملی بنائی جائے۔ پاکستان کا مستقبل اسی میں ہے کہ ہم اپنے وسائل کو سمجھداری سے استعمال کریں اور قومی مفاد کو سیاسی اختلافات پر مقدم رکھیں۔