جئے سندھ قومی محاذ کی سکھر سے شروع ہونے والی ریلی آج شام کراچی پریس کلب کے باہر اختتام پذیر ہوئی، جس میں مقررین نے متنازع نہر منصوبے، کارپوریٹ فارمنگ اور ہندو لڑکیوں کی مذہب کی مبینہ جبری تبدیلی سمیت دیگر مسائل کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
حکام، منتظمین اور عینی شاہدین کے مطابق مظاہرین نے 28 روز قبل سکھر سے مارچ شروع کیا تھا، جس کی مرکزی شارع فیصل پر فنانس اینڈ ٹریڈ سینٹر (ایف ٹی سی) کے قریب پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں، متعدد مظاہرین نے مبینہ طور پر پولیس اہلکاروں کو مارا جبکہ مرکزی شاہراہ پر ٹریفک جام ہو گئی۔ڈپٹی انسپکٹر جنرل جنوبی سید اسد رضا نے ڈان نیوز کو بتایا کہ تقریباً 500 سے 600 مظاہرین بشمول خواتین اور بچے ایف ٹی سی پہنچے۔
سید اسد رضا کا کہنا تھا کہ منتظمین کے رہنماؤں کے ساتھ سمجھوتہ ہوا تھا کہ ایف ٹی سی سے کراچی پریس کلب تک جانے کے لیے لکی اسٹار کی طرف جائیں گے۔مزید بتایا کہ انہوں نے خلاف ورزی کرتے ہوئے پرانے ریجنٹ پلازہ ہوٹل (ایس آئی یو ٹی ہسپتال) کی طرف بڑھنا شروع کر دیا، وہاں تعینات پولیس اہلکاروں نے انہیں آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کی۔متعدد مظاہرین نے پولیس اہلکاروں پر پتھروں اور لاٹھیوں سے حملہ کیا، جس کے نتیجے میں سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) جنوبی، ان کے محافظ، صدر پولیس اسٹیشن کے ہاؤس آفیسر اور دیگر پولیس اہلکار زخمی ہوگئے، مظاہرین نے مبینہ طور پر پولیس اور شہریوں کی گاڑیوں پر بھی حملہ کیا۔
مظاہرین کے خلاف درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق جسقم کے رہنماؤں نے مبینہ طور پر ایف ٹی سی کے مقام پر 400 سے 500 مظاہرین کو اکسایا، جنہوں نے مبینہ طور پر پتھروں اور ڈنڈوں سے پولیس اہلکاروں پر حملہ کر دیا، جس کے نتیجے میں 8 اہلکار زخمی اور پولیس کی تین گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ مظاہرین نے اپنے مذموم عزائم کو پورا کرنے کے لیے پولیس کی گاڑیوں پر حملہ کیا اور علاقے میں خوف و ہراس پھیلایا۔
ڈی آئی جی جنوبی سید اسد رضا نے کہا کہ مظاہرین کو بغیر کسی کارروائی کے منتشر کرنا ’مشکل‘ تھا، اس لیے پولیس نے کسی بھی واقعے سے بچنے کے لیے انہیں پریس کلب کی طرف جانے کی اجازت دی۔پولیس نے مبینہ طور پر مظاہرے کی قیادت کرنے والے 12 مشتبہ افراد کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 109، دفعہ 144، دفعہ 147، دفعہ 148، دفعہ 186، دفعہ 337 (ون) اے، دفعہ 353 اور دفعہ 427 کے علاوہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔
پریس کلب پر جسقم کے رہنماؤں اسلم خیرپور، نیاز کالانی، اسمٰعیل نوتکانی، عبدالستار چنہ، وحید سندھی، تاج جویو، الہیٰ بخش بیک، منیر حیدر شاہ، سوریحہ سندھی، مہر اور دیگر نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ دریائے سندھ پر 6 مجوزہ نہروں پر پیش رفت روکی جائے۔انہوں نے مذہبی انتہا پسندی اور سندھ میں ’بیرونی لوگوں‘ کی آمد کی بھی مذمت کی، ایکٹوسٹس نے سندھ کے سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں کے خاتمے اور ان کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔
پاکستان میں حالیہ انتخابات پرنجی ادارے کی رپورٹ جاری
سیمی فائنل میں پہنچنا بہت اچھا لگ رہا ہے، ویرات کوہلی
رمضان کی آمد ، منافع خورسرگرم ،کھانے پینے کی اشیا مہنگی
پارا چنار میں شدت پسندوں کیخلاف آپریشن تیز، مزید 20 افراد گرفتار