کینسل ایگزیمز سیو سٹوڈنٹس؟ تحریر: ڈاکٹر محمد عمیر اسلم

پچھلے کچھ عرصے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طالبعلموں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اُن کے امتحانات منسوخ کر کے انہیں پروموٹ کیا جائے۔ اس مطالبے کا پس منظر، وجوہات، مثبت و منفی پہلو اور اثرات پر بات کرتے ہیں۔

2020 میں کوویڈ (کرونا وائرس) کی وجہ سے جہاں دوسرے معمولات زندگی متاثر ہوئے، وہیں تعلیمی سرگرمیاں بھی شدید متاثر ہوئیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے تعلیمی ادارے بھی بند تھے۔ ان وجوہات کی بنا پر وزارت تعلیم نے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد امتحانات کے بغیر پروموشن کا فیصلہ کیا۔ دہم اور بارہویں جماعت کے امیدواروں کو پچھلے سال کے امتحانات کی بنا پر نمبر دیے گئے اور نہم اور گیارہویں کے طالبعلموں کو کہا گیا کہ اُنکو اگلے سال کے امتحانات کی بنا پر نمبر دیے جائیں گے۔

یہ ایک مجبوری میں کیا گیا فیصلہ تھا کیوں کہ اُس وقت نا تو کرونا سے بچاؤ کی ویکسین دستیاب تھی اور نہ ہی حالات کنٹرول میں تھے۔ لیکن اُس وقت کچھ ذہین/ محنتی بچوں نے امتحانات کی منسوخی کے خلاف احتجاج کیا تھا، جن کا موقف تھا کہ اس فیصلے کی وجہ سے نہ صرف اُنکی محنت رائیگاں جائے گی بلکہ مستقبل میں انکا میریٹ بھی متاثر ہو سکتاہے۔
2021 کے آغاز میں ہی وزیرِ تعلیم نے بول دیا تھا کہ اس سال امتحانات کے بغیر کسی کو بھی پروموٹ نہیں کیا جائے گا، لیکن وقتاً فوقتاً اس کے خلاف طالب علموں کی جانب سے احتجاج کیا گیا۔ جس میں باقاعدہ اعلان کے بعد شدت آ گئی۔

کچھ روز قبل کُچھ سٹوڈنٹس نے فیض آباد احتجاج کرتے ہوئے سرینگر ہائی وے کو نہ صرف بند کر دیا بلکہ وہاں موجود نجی گاڑیوں کو نقصان بھی پہنچایا۔ جس پر کارروائی کرتے ہوئے پولیس نے درجنوں گرفتاریاں کیں۔

سٹوڈنٹس کے تحفظات کو دیکھتے ہوئے حکومت نے اعلان کیا کہ اس سال امتحانات صرف آدھے اختیاری مضامین کے ہوں گے اور اُن 4-3 مضامین کا سلیبس بھی کم کر دیا گیا ہے۔

کچھ طالبِ علموں کا مطالبہ ہے کہ امتحانات کو منسوخ کر کے ان کو پروموٹ کر دیا جائے۔ اس کے لیے وہ پہلی توجیح یہ دیتے ہیں کہ ہمیں امتحانات کی تیاری کا وقت نہیں دیا گیا۔ دوسری توجیح کرونا کی دی جاتی ہے کہ ہماری جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک سال کا عرصہ 3 یا 4 مضامین کی تیاری کے لیے کم تھے؟ کیا انہوں نے پورا سال اِس اُمید میں تیاری نہیں کی کہ اگلے سال بھی امتحان کینسل ہو جائیں گے؟ اور اگر کرونا کی بات کی جائے تو اِسکی تیسری ویو تقریباً ختم ہو چُکی ہے، ویکسینیشن کا عمل زور و شور سے جاری ہے۔ اور اگر ہمیں شاپنگ کرتے وقت کرونا کی فکر نہیں ہوئی، احتجاج کرتے وقت کرونا کا خطرہ نہیں ہوتا تو امتحانات میں بھی کرونا کُچھ نہیں کہے گا۔

سٹوڈنٹس کے ایک دوسرے گروپ کا مطالبہ ہے کہ چونکہ ہماری کلاسز آن لائن ہوئی ہیں اِس لیے امتحانات بھی آن لائن لیے جائیں۔ یہ گروپ بھی آن لائن امتحانات کے لیے کرونا کی توجیح پیش کرتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اگر آپ کی تیاری اچھی ہے تو اس بات سے فرق نہیں پڑنا چاہیے کہ امتحان فزیکل ہوتے ہیں یا آن لائن۔ کرونا کی پیک میں کلاسز آن لائن ہوئی تھی، لیکن اس وقت اسکول اور کالج کھولے جا چُکے ہیں، اگر اس وقت بھی تعلیمی ادارے بند ہوتے تو یہ مطالبہ شاید قابلِ قبول ہوتا۔ اور ویسے بھی اگر روز مرہ زندگی کے لیے ہم کرونا کو خاطر میں نہیں لاتے تو امتحانات کے لیے یہ توجیح کچھ مضحکہ خیز ہے۔

آنلائن امتحانات کے لیے توجیح پیش کی جاتی ہے کہ چونکہ آنلائن کلاسز ٹھیک طرح سے نہیں ہوئیں اور بہت سارے لوگ انٹرنیٹ ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے کلاسز بھی نہیں لے سکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پڑھائی تو کتابوں کی مدد سے خود بھی کی جا سکتی ہے لیکن ایسے سٹوڈنٹس جن کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں وہ آن لائن امتحان کیسے دیں گے؟

کچھ بچے مطالبہ کرتے ہیں کہ چونکہ اُنکو تیاری کے لیے مناسب وقت نہیں ملا اس لیے اُنکے امتحانات کو ملتوی کیا جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر آپ ایک سال میں تیاری نہ کر سکے تو مزید کتنا وقت چاہیے؟
اور اس سب میں کچھ لوگوں نے اپنی سیاست چمکانے کے لیے طالب علموں کو بڑھاوا بھی دیا۔ ان معصوم بچوں کے درمیان موجود کُچھ شر پسند عناصر نے تو امتحانات منسوخ نا ہونے کی صورت میں املاک کو آگ لگانے کی دھمکیاں بھی دی ہیں۔

کُچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر سٹوڈنٹس کو بغیر امتحان پاس کر دیا گیا تو یہ نہ صرف اُن کے لیے بلکہ مُلک کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو گا۔ سٹوڈنٹس کے رویے سے لگتا ہے کہ انہوں نے تیاری نہیں کی۔ آج انکو امتحان کے بغیر ڈگری دی دی گئی تو کل کو یہ لوگ بغیر محنت نوکری کا مطالبہ بھی کریں گے۔ اور نوکری مل بھی گئی تو یہ پرفارم کیا کریں گے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ طالب علم آن لائن امتحانات کا مطالبہ اس لیے کر رہے ہیں کہ اِن میں نقل کرنا آسان ہے۔ لوگ اپنی جگہ کسی اور سے پیپر حل کروا سکیں گے یا کسی سے مدد لے سکیں گے۔

بالفرض اگر امتحان منسوخ ہو جاتے ہیں تو مستقبل کی پڑھائی کے لیے میرٹ کیسے بنیں گے؟ اور اگر اس سال بغیر امتحان ڈگری لینے والوں کو انڈسٹری نے قبول نہ کیا تو انکا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا یہ لوگ پھر سڑکوں پر آئیں گے؟

ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جو لوگ امتحان دینا چاہتے ہیں اُنکی اِس خواہش کا احترام کون کرے گا؟ ایسے سٹوڈنٹس تو اکثریت میں ہیں جو مطالبہ کرتے ہیں کہ اِن کے امتحان جلد سے جلد لیے جائیں۔ یہ طبقہ امتحان منسوخ ہونے کی صورت میں پیدا ہونے والے میرٹ اور نوکری کے مسائل کی وجہ سے بھی پریشانی کا شکار ہے۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر فزیکل امتحانات سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کے لئے 29 جون کو نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی) کے اجلاس کی صدارت کریں گے۔ جبکہ بین الصوبائی وزیر تعلیم کانفرنس (آئی پی ای ایم سی) میں لیے گئے فیصلوں کے بارے میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر تعلیم شفقت محمود نے ایک بار پھر واضح کیا کہ اس سال بغیر امتحان کسی بھی طالب علم کو اگلی کلاس میں ترقی نہیں دی جائے گی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں حکومت کو چاہیے کہ امتحانات میں بچوں کی صحت کے لیے خصوصی اقدامات کرے وہیں والدین کو بھی اپنے بچوں کو امتحانات کے لیے قائل کرنا چاہئے۔ طالب علموں کو بھی اپنی پڑھائی پر توجہ دینی ہوگی کیوں کہ امتحانات کا منسوخ ہونا مسائل کا حل نہیں ہے۔ بغیر امتحان ترقی کا سب سے زیادہ نقصان سٹوڈنٹس کا ہی ہوگا۔اس سے نہ صرف مزید مسائل پیدا ہوں گے بلکہ زندگی کے دوسرے امتحانات زیادہ مُشکِل ہو جائیں گے۔

Leave a reply