ڈیرہ غازی خان (باغی ٹی وی/شاہد خان) مون سون کی بارشیں ہمیشہ کوہ سلیمان کے مکینوں کے لیے آزمائش بن کر اترتی ہیں۔ اس سال بھی دریائے سندھ، ستلج، راوی اور چناب کی طغیانی نے پنجاب، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا۔ کھیت اجڑ گئے، مکانات تباہ ہوئے اور لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ لیکن انہی پانیوں نے ایک نئی تاریخ بھی آشکار کر دی۔

سخی سرور کی رود کوہی نے پہاڑوں کے دامن سے ایسے سکے اور نوادرات اُگل دیئے جو دو ہزار سال پرانے بتائے جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ خزانہ تہذیبوں کے سنگم کی گواہی دیتا ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ خطہ کبھی قدیم تجارتی قافلوں کی آماجگاہ رہا ہے۔

ابتدائی اندازوں کے مطابق مقامی افراد کے ہاتھ لگنے والے 400 سے 500 سکے مختلف ادوار سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں مغل بادشاہ شاہجہان اور اورنگزیب کے سکے، تغلق اور لودھی سلطنت کے سکے، سکھ عہد اور رنجیت سنگھ کی نشانیاں، درانی سلطنت کے سکے، کشن سلطنت کے حکمران ویما دیوا کنشکا کے سکے، نادر شاہ، بہادر شاہ ظفر اور محمد شاہ رنگیلا کے سکے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وسطی ایشیا، عرب دنیا، چین اور برطانوی دور کے سکے بھی ملے ہیں۔ یہ تنوع واضح کرتا ہے کہ ڈیرہ غازی خان کے پہاڑ زمانہ قدیم میں تجارتی شاہراہوں کا اہم حصہ رہے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان محمد عثمان خالد، پولیٹیکل اسسٹنٹ امیر تیمور اور محکمہ آثارِ قدیمہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر سلمان تنویر نے سخی سرور میں کوہ سلیمان کے دامن کا دورہ کیا اور برآمد ہونے والے نوادرات کا معائنہ کیا۔ مقامی افراد نے رضاکارانہ طور پر سکے انتظامیہ کے حوالے کیے، جس پر ان کے کردار کو سراہتے ہوئے تعریفی اسناد اور انعامات دینے کا اعلان کیا گیا۔

ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ کمشنر ڈیرہ غازی خان ڈویژن اشفاق احمد چوہدری کی ہدایت پر محکمہ آثار قدیمہ کی خصوصی ٹیم یہاں لائی گئی ہے۔ ان کے مطابق کوہ سلیمان کی یہ دریافت نہ صرف ہماری تاریخ کو اجاگر کرتی ہے بلکہ مستقبل میں سیاحت اور تحقیق کے نئے دروازے بھی کھولے گی۔

ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ آثار قدیمہ سلمان تنویر نے کہا کہ یہ علاقہ قدیم تجارتی قافلوں کی گزرگاہ رہا ہے اور مزید تحقیق و کھدائی سے مزید نوادرات سامنے آنے کا امکان ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ اس مقام کو ریسرچ سینٹر اور سیاحتی مرکز بنانے کے لیے سفارشات تیار کر رہا ہے۔

سخی سرور کی نگری کو حضرت سلطان المعروف سخی سرور رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت سے شہرت حاصل ہے۔ آپ نے اس خطے میں دین اسلام کی ترویج کی اور صدیوں بعد بھی آپ کا مزار عقیدت مندوں کا مرکز ہے۔ عقیدت مند روایت کرتے ہیں کہ جب رود کوہی سیلابی کیفیت میں آپ کے مزار کے عقب سے گزرتی ہے تو یہ پانی "سلام عقیدت” پیش کرتا ہوا دریائے سندھ کی طرف بڑھتا ہے۔ یہی روحانی وابستگی آج بھی اس خطے کی پہچان ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کوہ سلیمان قدیم شاہراہِ ریشم سے جڑا ہوا خطہ ہے، جہاں سے گزرنے والے قافلے وسطی ایشیا، خراسان اور عرب دنیا سے روابط قائم کرتے تھے۔ اس دریافت نے اس تاریخی تسلسل کو مزید مستحکم کر دیا ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف، سیکرٹری سیاحت احسان بھٹہ، ڈی جی آثار قدیمہ پنجاب اور دیگر متعلقہ اداروں نے یقین دلایا ہے کہ ملکی و بین الاقوامی ماہرین کے ذریعے مزید کھدائی اور تحقیق کی جائے گی تاکہ نہ صرف ان اثاثوں کو محفوظ بنایا جا سکے بلکہ خطے کی ترقی اور سیاحت کے فروغ کے لیے بھی انقلابی اقدامات کیے جا سکیں۔

Shares: