چاہتا ہوں کہ سب کھل کر سامنے آئے، میں پبلک میں شرمندہ ہونے کو تیار ہوں ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

چاہتا ہوں کہ سب کھل کر سامنے آئے، میں پبلک میں شرمندہ ہونے کو تیار ہوں ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر موقف آ گیا

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ مین جواب جمع کروا دیا ،حکومت نے جسٹس فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواستوں کی کارروائی براہ راست دکھانے کی درخواست نا قابل سماعت قراردے دی

وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے دلائل دیتے ہوئے جسٹس فائز کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیدی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ کارروائی براہ راست نشر کرنے کی استدعا نہیں کی جاسکتی ،نظرثانی کیس میں184/3 کی درخواست دائر نہیں ہو سکتی ،نظرثانی کیس میں کوئی نیا موقف نہیںاپنایا جاسکتا،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ قانون میں کھلی عدالت میں سماعت کا ذکر ہے میڈیا پر نشرکرنے کا نہیں ۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ براہ راست نشریات میڈیا کا حق ہے کسی فریق کا نہیں ،کسی میڈیا ہاﺅس نے براہ راست نشریات کی درخواست نہیں دی ،عامر رحمان نے کہا کہ کیاآزادی اظہار رائے کا مطلب براہ راست نشریات ہے؟جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کہتے ہیں میڈیا پر پابندیاں ہیں ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے ہمیشہ میڈیا کی آزادی کی بات کی ہے ،عدالت نے کبھی سماعت کی براہ راست کوریج میڈیا کا حق قرارنہیں دیا ،

جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس فائز کا انحصار غیرملکی عدالتوں کے فیصلوں پر ہے ،اے اے جی نے کہاکہ میڈیا کی آزادی بھی قانون سے مشروط ہے مطلق نہیں ،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت نہ بتائے کہ ہمیں کیا کرنا ہے ،براہ راست نشریات عدالت کا اختیارہے حکومت کا نہیں ،اے اے جی نے کہا کہ حکومت کاموقف ہے یہ عدالتی نہیں سپریم کورٹ کا انتظامی معاملہ ہے

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کا ہمیں بتانے کااختیار نہیں توکسی سائل کا بھی نہیں ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالتی اورپارلیمانی کارروائی کی براہ راست نشریات میں فرق ہیں ،پارلیمان میں بحث عمومی، عدالت میں ٹیکنیکل ہوتی ہے ،عدالتی کارروائی میں استعمال زبان عام فہم نہیں۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ہم گلوبل ویلج میں رہ رہے ہیں دنیا کیساتھ چلنا ہوگا،عدالتی کارروائی میں کچھ بھی خفیہ نہیں ہوتا،سپریم کورٹ اس ملک کے عوام کی عدالت ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ گوادرکا شہری عدالتی کارروائی دیکھنا چاہے توکیسے روک سکتے ہیں؟ شترمرغ کی طرح گردن زمین میں دیکر بیٹھنے کا فائدہ نہیں ،وکیل یا جج کوئی بدتمیزی کرے تو عوام کومعلوم ہونا چاہئے ۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 2 سال سےمیری زندگی مائیکرواسکوپ کے نیچے ہے،اب چاہتا ہوں کہ سب کھل کر سامنے آئے، میں پبلک میں شرمندہ ہونے کو تیار ہوں لیکن حکومت خوفزدہ ہے، یہ پروپیگنڈسٹ اور کنٹرولڈ میڈیا چاہتے ہیں جو ان کی طرف کی بات کرے، یہ گلا پھاڑ کر میرے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں، حکومت نے میڈیا کو تباہ کردیا، لوگ یوٹیوب پر جارہے ہیں، ان کو اس پر بھی اعتراض ہے، شہزاد اکبر نے مئی2019 میں پریس کانفرنس کرکے میری کردارکشی کی، 2 سال گزر گئے اور اب شہزاد اکبر اتنے خوفزدہ ہیں کہ عدالت نہیں آتے،

Comments are closed.