چیئرمین سینیٹ کو ہٹائے جانے کی گیم اپوزیشن کو الٹی پڑ سکتی ہے، مسلم لیگ ن کے اجلاس میں صرف 19 سینیٹر شریک ہوئے.
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن نے سینیٹ میں قرارداد جمع کروائی ہے ساتھ اجلاس بلانے کی ریکوزیشن بھی جمع کروائی ہے، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کا فیصلہ اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی میں کیا گیا تھا .
حاصل بزنجو، چیئرمین سینیٹ کے اپوزیشن کے متقفہ امیدوار،سینیٹر کب بنے؟
چیئرمین سینیٹ کے امیدوار پر اپوزیشن کا ہو گیا اتفاق،کون ہو گا نیا چیئرمین سینیٹ؟
اپوزیشن نے مشترکہ طور پر نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ کا امیدوار نامزد کیا ہے، صادق سنجرانی نے بھی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی ہے جبکہ گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی چیئرمین سینیٹ سے ملاقات کی ہے اور بھر پور تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے.
چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کی مہم اپوزیشن کو الٹی پڑ گئی، حکومت کا بڑا فیصلہ
چیئرمین سینیٹ کو ہٹائے جانے کے حوالہ سے مسلم لیگ ن کے سینیٹرز کا اجلاس ہوا جس میں صرف 19 سینیٹرز نے شرکت کی ، ن لیگ کے 31 سینیٹر ہیں جن میں سے اسحاق ڈار نے حلف نہیں لیا، تو تیس میں سے اجلاس میںصرف 19 سینیٹر شریک ہوئے.
عدم اعتماد کی قراردار کے باوجود اپوزیشن کی چیئرمین سینیٹ کی زیرصدارت اجلاس میں شرکت
ن لیگ کے سینیٹرز کے اجلاس میں تجویز دی گئی کہ ہارس ٹریڈنگ سے بچنے کیلئے ن لیگ اور اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کو کسی سیاحتی مقام پر اکٹھا کیا جائے اور ووٹنگ والے دن انہیں سیدھا پارلیمنٹ ہاؤس لا کر ووٹ ڈلوایا جائے۔ تجویز کی بعض سینیٹرز نے مخالف کرتے ہوئے کہا کہ یہ صورتحال عدم اعتماد کے مترادف ہے۔ ہم نے ضمیر کے مطابق ووٹ دینا ہے۔
اجلاس میں 19 سینیٹرز کی شرکت کی وجہ سے مسلم لیگ ن کی قیادت خود پریشان ہو گئی دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کو بھی خدشہ لاحق ہو گیا کہ کہیں چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کی گیم الٹی ہی نہ پڑ جائے؟ سینیٹ میں اپوزیشن کے نمبر گیمز پر پھر سے خدشات سامنے آگئے۔ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کیلئے مسلم لیگ ن کے اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں صرف 19 سینیٹرز شریک ہوئے۔ جس سے اپوزیشن کو نمبر گیم میں کمی کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
باخبر ذرائع کے مطابق تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں اپوزیشن کے 10 سے زائد سینیٹرز پارٹی پالیسی سے منحرف ہو سکتے ہیں۔ منحرف سینیٹرز اپنا احتجاج غیر حاضری کی صورت میں کریں گے ،دوسری جانب مسلم لیگ ن نے اپنے سینیٹرز سے رابطے تیز کرکے اختلافات کو کم کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرا چکے ہیں، پیپلزپارٹی کے اندر بھی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ سینیٹر شیری رحمان اختلافات کی تردید کی ہے مگر ساتھ اپنے اس بیان کے ذریعے خدشات کا بھی اظہار کیا، انہوں نے کہا ہے کہ حکومت کے پاس سینیٹ میں مطلوبہ تعداد موجود نہیں، فارورڈ بلاک کس طرح بن سکتا ہے؟ یہ تو قانون کی نفی ہوگی۔
پی پی رہنما شیری رحمان نے وزیر اعظم اور چیئرمین سینیٹ کی ملاقات کے موقع پر دیے گئے بیان کو بھی ہارس ٹریڈنگ قرار دیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اپوزیشن کو واضح اکثریت حاصل ہے، اس لیے چیئرمین سینیٹ لانے میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔
تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر فیصل جاوید نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ 12 سے 13 ن لیگی سینیٹرز ن لیگ کے امیدوار یا اپوزیشن کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیں گے، فیصل جاوید کا مزید کہنا تھا کہ اپوزیشن کو چاہیے کہ تحریک عدم اعتماد واپس لے، ورنہ بہت بڑا نقصان ہوگا۔ ن لیگ کے سینیٹرز بھی ان کے ایم پی ایز کی طرح متنفر ہو رہے ہیں
دوسری جانب تحریک انصاف نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کروا دی گئی ہے، اس حوالہ سے تحریک انصاف نے اپنی اتحادی جماعتوں سے مشاورت شروع کر دی ہے .قراردادقائد ایوان شبلی فراز ،بلوچستان عوامی پارٹی ،فاٹا،پی ٹی آئی کےسینٹرز کی جانب سےجمع کرائی گئی ,
اپوزیشن نے صادق سنجرانی کو ہٹانے کی قرارداد اور سینیٹ کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرائی۔ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو نئے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لئے انتخاب خفیہ رائے شماری سے ہوگا۔ سینیٹ کا اجلاس 14 روز کے اندر بلایا جائے گا۔
واضح رہے اے پی سی کے بعد اپوزیشن رہنماﺅں کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے 25جولائی کو یوم سیاہ منائے جانے اور عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا اعلان کیا تھا جبکہ چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا اور اے پی سی کے فیصلوں پر عمل در آمد کیلئے رہبر کمیٹی تشکیل دیدی گئی تھی۔ بعد ازاں 5 جولائی کو متحدہ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی نے چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو عہدے سے ہٹانے کا حتمی فیصلہ کرتے ہوئے اس سلسلے میں چئیرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد جمع کرانے کا اعلان کیا تھا۔