سپریم کورٹ،بینچزکے اختیارات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی،
طلبی پررجسٹرار سپریم کورٹ پیش ہوئے، سپریم کورٹ نے رجسٹرار سے سوال کیا کہ عدالتی حکم کے باوجود کیس مقرر کیوں نہ ہوا؟ رجسٹرار نے جواب دیا کہ کیس آئینی بینچ کا تھا، غلطی سے ریگولر میں لگ گیا تھا، جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ اگر یہ غلطی تھی تو عرصے سے جاری تھی اب ادراک کیسے ہوا؟معذرت کیساتھ غلطی صرف اس بینچ میں مجھے شامل کرنا تھی، جسٹس عقیل عباسی نے رجسٹرار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں کیس کو ہائی کورٹ میں سن چکا تھا، پتہ نہیں مجھے بینچ میں شامل کرنا غلطی تھی کیا تھا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اس معاملے پر اجلاس کیسے ہوا؟ کیا کمیٹی نے خود اجلاس بلایا یا آپ نے درخواست کی؟ رجسٹرار سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم نے کمیٹی کو نوٹ لکھا تھا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جب جوڈیشل آرڈر موجود تھا تو نوٹ کیوں لکھاگیا؟ہمارا آرڈر بہت واضح تھا کہ کیس کس بینچ میں لگنا ہے، عدالت نے رجسٹرار کو ہدایت کی کہ وہ نوٹ دکھائیں جو آپ نے کمیٹی کو بھیجا،رجسٹرار سپریم کور ٹ نے کمیٹی کو بھیجا گیا نوٹ عدالت میں پیش کردیا
جہاں محسوس ہو فیصلہ حکومت کیخلاف ہو سکتا ہےتو کیس ہی بینچ سے واپس لے لیا جائے؟جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس منصور علی شاہ نے رجسٹرار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ نوٹ میں غلطی کا ادراک تو نہیں کیا گیا، نوٹ میں آپ لکھ رہے ہیں کہ 16 جنوری کو آرڈر جاری ہوا ،نوٹ میں آپ آرڈر کی بنیاد پر نیا بینچ بنانے کا کہہ رہے ہیں، آرڈر میں تو ہم نے بتایا تھا کہ کیس کس بینچ میں لگنا ہے؟ رجسٹرار نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے کیس آئینی بنچ کی کمیٹی کو بھجوایا،آئینی بینچز کی کمیٹی نےترمیم سے متعلقہ مقدمات 27 جنوری کو مقرر کیے،ترمیم کے بعد جائزہ لیا تھا کہ کونسے مقدمات بینچ میں مقرر ہو سکتے ہیں کونسے نہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیس شاید آپ سے غلطی سے رہ گیا لیکن بینچ میں آ گیا تو کمیٹی کا کام ختم، کمیٹی چلتے ہوئے کیسز واپس لے تو عدلیہ کی آزادی تو ختم ہو گئی،جہاں محسوس ہو فیصلہ حکومت کیخلاف ہو سکتا ہےتو کیس ہی بینچ سے واپس لے لیا جائے؟جسٹس منصور علی شاہ نے رجسٹرار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیس آپ سے رہ گیا اور ہمارے سامنے آ گیا، آخر اللہ تعالیٰ نے بھی کوئی منصوبہ ڈیزائن کیا ہی ہوتا ہے، جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ ہمارے کیس سننے سے کم از کم آئینی ترمیم کا مقدمہ تو مقرر ہوا،پہلے تو شور ڈلا ہوا تھا لیکن ترمیم کا مقدمہ مقرر نہیں ہو رہا تھا، ٹیکس کیس میں کونسا آئینی ترمیم کا جائزہ لیا جانا تھا جو یہ مقدمہ واپس لے لیا گیا، عدالت نے معاونت کیلئے اٹارنی جنرل کو فوری طور پر طلب کر لیا ،عدالت نے کہا کہ جو دستاویزات آپ پیش کر رہے ہیں یہ ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کا دفاع ہے، دفاع میں پیش کیے جانے والے موقف پر عدالت فیصلہ کرے گی کہ درست ہے یا نہیں،
یہ تو ہم اس کیس میں بتا ئیں گے کہ کمیٹی کیسز واپس لے سکتی ہے یانہیں ،جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو مقدمہ واپس لینے کا اختیار کہاں سے آیا؟رجسٹرار نے کہا کہ کمیٹی کیسز مقرر کر سکتی ہے تو واپس بھی لے سکتی ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ تو ہم اس کیس میں بتا ئیں گے کہ کمیٹی کیسز واپس لے سکتی ہے یانہیں ، جسٹس منصور علی شاہ نے رجسٹرار سپریم کورٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ میں بھی رہے، آپکو چیزوں کا علم تو ہوگا،ججز کمیٹی کا عدالتی بنچ سے کیس واپس لینے سے تو عدلیہ کی آزادی کا خاتمہ ہو جائے گا،رجسٹرار سپریم کورٹ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون ایکٹ آف پارلیمنٹ ہے،پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت ججز کمیٹی عدالتی بنچ سے کیس واپس لے سکتی ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا رہا تو کل کوئی کیس اس وجہ سے واپس لے لیا جائے گا کہ حکومت کیخلاف فیصلہ ہونے لگا ہے، میں ایک وضاحت کرنا چاہتا ہوں، 17 جنوری کو ججز کمیٹی کے دو اجلاس ہوئے، مجھے ریگولر ججز کمیٹی اجلاس میں مدعو کیا گیا،میں نے جواب دیا جوڈیشل آرڈر دے چکا ہوں، کمیٹی میں بیٹھنا مناسب نہیں،پھر 17 جنوری کو ہی آرٹیکل 191 اے فور کے تحت آئینی بنچز ججز کمیٹی کا اجلاس ہوا،جس وقت عدالتی بنچ میں کیس تھا اس وقت دو اجلاس ایک ہی دن ہوئے،جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ ججزآئینی کمیٹی نے منٹس میں کہا 26ویں آئینی ترمیم کیس آٹھ ججز کے سامنے سماعت کیلئے مقرر کیا جاتا ہے، اس لیے یہ کیس آئینی بنچ میں بھیجا جاتا ہے، 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف تو ہم کیس سن ہی نہیں رہے تھے، چلیں اچھا ہے، اس کیس کے بہانے کیسز تو لگنا شروع ہو گئے،
ججز کمیٹی بنچ سے کیس واپس لے سکتی ہے یا نہیں،اٹارنی جنرل طلب،منیر اے ملک اور حامد خان عدالتی معاون مقرر
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی کے بنچ نے اٹارنی جنرل کو عدالت میں طلب کر لیا،سینئر وکیل منیر اے ملک اور حامد خان کو عدالتی معاون مقرر کر دیا گیا ،عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل سمیت دیگر وکلا کو کل سنیں گے،یہ اہم معاملہ ہے کہ ججز کمیٹی بنچ سے کیس واپس لے سکتی ہے یا نہیں،
ایڈووکیٹ صلاح الدین نے بینچ کے سامنے استدعا کی کہ کچھ ججز کے اختیارات باقی ججز سے کیوں زیادہ ہیں اس معاملے پر فل کورٹ بنایا جائے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہم نے تو کمیٹی میں پہلے اس بات کی ریکوئسٹ کردی تھی۔ جسٹس عقیل عباسی نے سوال اٹھایاکہ کیا ہم توہین عدالت کی سماعت میں ایسا حکم جاری کر سکتے ہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اس سے متعلق وکلاء ہمیں آگاہ کریں۔ لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شاہد جمیل کھڑے ہوئے اور کہا کہ آرٹیکل 187 کے تحت سپریم کورٹ مکمل انصاف کی فراہمی کے لئے فل کورٹ بنا سکتی ہے۔
جوبائیڈن کے 78 صدارتی اقدامات منسوخ،ٹرمپ نے اہم ایگریکٹو آرڈر پر کئے دستخط