چناروں میں ہندتوا کا رقص اور تحریک آزادی کشمیر تحریر :سفیر اقبال

0
32

چناروں میں ہندتوا کا رقص اور تحریک آزادی کشمیر
تحریر :سفیر اقبال

ایک سال گزر گیا ….
پورے ایک سال میں بھارت نے کاشمیر کو اٹوٹ انگ بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا…. ایل او سی کو فریز کروا لیا… امریکہ کی خاموش حمایت سے ہر قسم کے عالمی قانون کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھ کر لاک ڈاون لگایا…. نیٹ سروس بند کی اور چناروں کی وادی کو ساری دنیا سے کاٹ دیا….! جہاں دل کیا، جب دل کیا معصوم کشمیری ماؤں بچوں کو خون میں تڑپا دیا … گھر جلا دئیے…. اور لاشوں کو بھون دیا ….!

اس دوران سید علی گیلانی اور ان کے رفقاء ہوا پہ لکھ لکھ کر پاکستان کو مدد کے لیے پکارتے رہے… دریائے نیلم کی تند و تیز لہریں کشتیاں جلانے والے کسی طارق بن زیاد کا انتظار کرتی رہیں…. درد کے آنگن میں سسکتی کشمیری بہنیں محمد بن قاسم کو پکارتی رہیں…. بابری مسجد…. فاتح القدس صلاح الدین ایوبی کا انتظار کرتے کرتے مندر میں تبدیل ہو گئی لیکن عرب سے کوئی محمد بن قاسم…. مصر سے کوئی صلاح الدین ایوبی…. مراکش سے کوئی طارق بن زیاد…. افریقہ سے کوئی یوسف بن تاشفین اور پاکستان سے کوئی رجل عظیم کوئی محسن اس بستی کی مدد کے لیے نہ پہنچا. (کاشمیر کے محسن کاشمیر سے محبت کرنے کے جرم میں پاکستان میں قید رہے جس طرح کاشمیری حریت رہنما پاکستان سے محبت کرنے کے جرم میں بھارتی جیلوں میں قید تھے ) کاشمیر کی خاک شہیدوں کے لہو سے سیراب ہوتی رہی… اور ہندوتوا کا رقص چناروں کی وادی میں مسلسل جاری رہا….!

جب دینی غیرت زنگ آلود ہو جائے اور ملکوں کے ذاتی مفادات پہلی ترجیح بن جائیں تب غیرت خداوندی جوش میں آتی ہے. جن لوگوں نے ایک بستی کے لاک ڈاون سے چشم پوشی کی تھی اب ساری دنیا میں لاک ڈاون دیکھ رہے تھے. رب کا عذاب اتنا شدید برسا کہ ساری دنیا نے کاشمیر کے لاک ڈاون کا درد محسوس کر لیا. ایک بستی سے نظریں چرانے والوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے شہر کے شہر اجاڑ دئیے.

لیکن وقت ہر زخم کا مرہم ہوتا ہے. سورج ہمیشہ سر پر نہیں رہتا. کاشمیر کی طرف عالمی برادری کی توجہ بڑھی…. دنیا میں لاک ڈاون میں کمی آنا شروع ہوئی. پاکستان جو پہلے ہر ایسے موقع پر کاشمیر کے حوالے سے "ہم ساتھ کھڑے ہیں” والا بیان دے کر دل و دماغ میں تشکیک کے یہ بیج بو رہا تھا کہ شاید اب پاکستان کے لیے کاشمیر کا مطلب آزاد کاشمیر ہے …. اچانک اس نے سرینگر تک جانے کے عزم کا ارادہ کیا. کپواڑہ سے لیکر لولاب تک راجوری سے لیکر بانڈی پورہ تک …. سارے کاشمیر کو اپنے نقشے میں شامل کر لیا…. شاہراہ کاشمیر کو شاہراہ سرینگر میں بدل دیا…. جارحانہ سفارتکاری دکھاتے ہوئے دوستی دشمنی بدلنے کے ارادوں کا اظہار کیا….!

اور یہ سب کچھ پورے ایک سال بعد 5 اگست کے بعد کیا….. تا کہ دنیا تک یہ پیغام جا سکے کہ بھارت اگر ایک سال میں اٹوٹ انگ کو اپنا نہیں کر سکا تو اب کشمیریوں کو اپنی مرضی سے جینے کا حق ملنا چاہیے.

اب ساری دنیا ایک طرف ہے اور ہندوتوا دوسری طرف….! کشمیر کی وادی میں ایک سال تک فاتحانہ اور بلا روک ٹوک جبر و تشدد برپا کرنے کا انجام عالمی سطح پر بھارت کی تنہائی کی صورت میں نکلا…. ورنہ اس سے قبل عالمی سطح پر مسئلہ کاشمیر پر ایک غلطی بھارت کی سامنے آتی تو دس زیادتیاں پاکستانی فریڈم فائیٹرز کی بھارت بیان کر کے دنیا کو رام کر لیا کرتا تھا.

لیکن اب پاکستان کاشمیر کے معاملے میں ایک ایک قدم محتاط ہو کر اٹھا رہا ہے. مقبوضہ کشمیر کو اپنے نقشے میں شامل کرنے کے بعد… شاہراہ کشمیر کو شاہراہ سرینگر میں تبدیل کرنے کے بعد… اب پاکستان اپنے نام آخری خط لکھنے والے قائدِ حریت سید علی گیلانی صاحب کو نشانِ پاکستان کے اعزاز سے بھی نوازنے والا ہے. اب ایسے موقع پر پاکستان کو چاہیے کہ مزید جرات اور ہمت کا مظاہرہ کرے اور عالمی دباؤ کو نظر انداز کر کے پاکستان کی فلاحی تنظیموں اور کشمیر کے محسنوں کو بھی آزاد کرے… انہیں کھل کر کام کرنے کا موقع دے تا کہ سفارتی محاذوں پر جیتی جانے والی جنگ عملی میدانوں میں ناکامی کا شکار نہ ہو.

آزادیاں کیسے ملتی ہیں اور کتنی قربانیوں کے بعد ملتی ہیں…. یہ دیکھنے کے لیے دور کیوں جائیں. پاکستان کو ہی دیکھ لیں. 1857 کی جنگ آزادی کی جدوجہد کو منفی کر کے بھی دیکھیں تو 90 سال بنتے ہیں. 1857 میں ناکامی کے بعد کافی عرصہ تک مسلمانوں میں جدوجہد آزادی کی تحریک ٹھنڈی پڑ گئی اور اس کی وجہ یہی تھی کہ کوئی واضح نظریہ، دو ٹوک موقوف برصغیر کے مسلمان نہیں اپنا سکے. انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ہم نے کرنا کیا ہے اور علیحدہ وطن کا بھی کوئی نقشہ کسی کے ذہن میں نہیں تھا.

1930 میں علامہ اقبال نے اس عزم کو بطور تصور پیش کیا. تمام مسلم اکثریتی علاقوں کو ملا کر علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کی تجویز دی اور 1940 میں محمد علی جناح نے اس کو نظریہ پاکستان کا نام دے کر مسلمانان برصغیر کے دلوں میں راسخ کر دیا.

وہ نظریہ جب ہر مسلمان کے دل میں موجزن ہوا تو سات سال کے اندر ہی مسلمان ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے.

کشمیر کے مسلمان بھی جب نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ پر سختی سے عمل پیرا ہوں گے تو ان شا اللہ صبح آزادی کو حاصل کر لیں گے اور اگر ذاتی مشاہدے کی بات کی جائے تو برہان وانی کی شہادت کے بعد جو کچھ زمین و آسمان نے دیکھا…. جتنی محبت اسلام اور جدو جہد آزادی کے ساتھ کاشمیریوں کی دیکھی آج تک پوری اسلامی تاریخ ہی نہیں انسانی تاریخ بھی اس کی مثال دینے سے قاصر ہے. اگر تحریک کا کل وقت بر ہا ن وانی کی شہادت کے بعد کا لیا جائے اور حکومتی سطح پر پاکستان کی طرف سے پر زور حمایت کا وقت موجودہ حکومت کے حساب سے دو سال لیا جائے تو خود اندازہ کر لیں کہ ان چار سالوں میں تحریک عالمی سطح پر کہاں سے کہاں تک پہنچ چکی ہے اور صبح آزادی کے لیے مزید کتنا وقت درکار ہے.

اس آگ میں جلنے والوں کے کہتے ہیں براہیمی تیور
کشمیر کے جنت بننے میں ممکن ہی نہیں تاخیر بہت

Leave a reply