اگلے وقتوں میں کہیں کوئی "چھٹی حس” رہتی تھی. وہ وہاں زمانے کے طور طریقوں سے قدم قدم پر ٹکر لیتی تھی. مثلا صنفِ نازک ہونے کے باوجود وہ ایک بات کو سترہ جملوں میں بولنے کے بجائے اشاروں کنایوں سے کام لیا کرتی تھی. عقل کا سہارا تھی. نوجوان عقل چونکہ بالغ نہیں تھی، اسی لیے "چھٹی حس” سے کتراتی تھی، البتہ بوڑھی عقل "چھٹی حس” سے وقتاً فوقتاً کام لیتی رہتی تھی.
ایک بار ایک آدمی، جس کے دماغ میں عقل طفلی نے بسیرا کر رکھا تھا، کا ایک جنگل سے گزر ہوا. اچانک رات کے سناٹے میں کچھ عجیب آوازیں سنائی دینے لگیں. "چھٹی حس” جو اب تک بے ہوش تھی، فوراً ہوش میں آئی، اردگرد بھاگنے لگی اور واپس آکر عقل طفلی کو کسی اجنبی شہنشاہِ جنگل کی متوقع آمد سے آگاہ کیا مگر عقل طفلی تو ٹھہری عقل کی دشمن… اس نے کسی خطرے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ٹانگوں کو مذکورہ سمت چلنے کی ہدایت کر دی. اب شیر تو بیٹھا ہی اسی تاک میں تھا کہ یہ قدم بڑھائے اور میں اس کی بوٹی بوٹی کا مزہ لوں. چنانچہ چند قدم بڑھتے ہی شیر اور آدمی آمنے سامنے کھڑے ایک دوسرے کی ماسیوں کا حال احوال بوچھنے کی ناکام کوشش کرنے لگے. ایک بار پھر "چھٹی حس” چلائی، "بھائی مانا کہ تیرے رشتے دار عجیب ہیں مگر یہ تیرا خالہ زاد نہیں ہے. یہ شیر ہے شیر. اس سے بچ…”
عقل َطفلی مگر کہاں ماننے والی تھی… سو زبان کو حکم دیا کہ "یہ شیر ہے تو میں سوا شیر ہوں. یہ سوا شیر ہے تو میں ساڑھے شیر ہوں.” بولے. زبان نے حکم کی تعمیل کی ہی تھی کہ شیر پورا منہ کھول کر دھاڑا. آدمی کا آدھ پاؤ کے بقدر دل حلق میں آکر اچھلنے لگا. یوں عقل طفلی کو خطرے کا احساس ہوا اور وہ "چھٹی حس” کو مدد کیلئے پکارنے لگی مگر اب اس کا کام تو ختم ہوچکا تھا. خیر "چھٹی حس” کو عقل طفلی پر رحم آیا اور وہ راہ فرار سوچنے لگی. شیر نے بوریت بھری جمائی لی. اس کو یقین تھا کہ اب تو چاہے لڑکیاں پانچ منٹ میں میک اپ کرلیں یعنی سورج مغرب سے طلوع ہوجائے، وہ اس آدمی کی ہڈیوں سے یخنی بنا کر مردانہ کمزوری کا علاج کر ہی لے گا. (اس بات کا غالب امکان ہے کہ شیر کو یہ مشورہ شیروں کی بستی میں مقیم "چھٹی حس” نے دیا ہو.)
انسانی "چھٹی حس” کیلئے اتنی مہلت کافی تھی. اس نے فٹافٹ آدمی کے کانوں میں سرگوشی کی، "ہوسکتا ہے یہ شیر غیرت مند ہو، اس کو غیرت دلا کر دیکھو، جان بچ سکتی ہے.”
عقل طفلی نے فوراً قوت گویائی سے کام لیتے ہوا کہا…
"جنگل کے بادشاہ ہوکر بھی ننگے پھرتے ہو. ایسی بادشاہت کا کیا فائدہ جو ستر کو بمع چند کمزوریاں ظاہر کرے.”
بس بادشاہ صاحب "چھٹی حس” کی چالاکی کی تاب نہ لا سکے اور قبل اس کے کہ آدھ پاؤ دل کی دھڑکن رکتی، وہاں سے چل دیے.
"چھٹی حس” اپنی چالاکیوں کے باعث بستی میں مشہور ہوگئی. اس کی سہیلیاں اس کی چیلیاں بن گئیں. یوں ہر شخص اپنے تھیلے میں” چھٹی حس” لیے پھرتا اور حسبِ ضرورت مدد لے لیتا.
ایک بار ایک عاشق نے محبوبہ سے کہا، "پہلے کی نسبت اب تم میں وہ خوبصورت دوشیزہ نہیں رہی. جان من اب من سے دو من ہوگئی ہو. غالباً کمر سے کمرہ کہنا غلط نہ ہوگا.”
بس پھر کیا تھا. محبوبہ کے بھاری بھرکم وجود میں آگ بھڑک اٹھی. قبل اس کے کہ وہ عاشق کا سر پھاڑ دیتی، "چھٹی حس” نے تھیلے سے باہر جھانکتے ہوئے عاشق کو اس کی چرب زبانی کا احساس دلایا اور سدباب کا مشورہ دیا. عاشق فوراً رومانوی انداز میں گویا ہوا،
"جان من! ناراض کیوں ہوتی ہو؟ سنو، ماں اپنے بیٹے کو چاند کہتی اور بیٹی کو الف کے اضافے سے چندا کہتی ہے. اسی طرح بیٹے کو اگر قمر کہیں تو بیٹی کو قمرا کہیں گے.
اس تناظر میں جب تمہیں کوئی کمرہ (قمرا) کہے تو یقین مانو اس سے مراد چاند ہوتا ہے. یہ تنقید نہیں ہے بلکہ تعریف ہے.”
محبوبہ فوراً بولی، "مگر کمرہ میں ‘ک’ آتا ہے اور قمرا میں ‘ق’.”
"چھٹی حس” کے لیے یہ سوال متوقع تھا. سو جواب یوں بنا…..
"ق سے قینچی بنتی ہے، ک سے کتی بنتی ہے. دونوں کا کام کاٹنا ہوتا ہے. سو دونوں ایک ہی چیز ہیں.” محبوبہ مطمئن ہوگئی اور "چھٹی حس” نے ایک اور عاشق کو ناکام عاشق یعنی انجنئیر بننے سے بچا لیا.
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ "چھٹی حس” نہ صرف مشکلات میں بلکہ موزوں حالات میں بھی مدد کرنے لگی. سردیوں میں کسی غیر محرم کے ہاتھوں آم لینے سے گرمیوں میں اسی غیر محرم سے مالٹے پکڑنے تک، بہار میں اخلاق سے عاری پتوں سے لے کر خزاں میں کاغذی پھولوں کے حصول تک، ہر جگہ "چھٹی حس” مذکورہ شخص کو متنبہ کرتی رہی.
ابتدائے آفرینش سے یہ بات دنیا کے ماتھے پر لکھ دی گئی تھی کہ اس دنیا میں دو چیزیں کبھی نہیں آئیں گی، ایک بھٹو کی موت اور دوسرا "چھٹی حس” کا بڑھاپا. چنانچہ آج بھی "چھٹی حس” جوں کی توں زندہ و جاوید ہے اور اپنے کام میں مصروف ہے.
ابھی پچھلے دنوں میں اپنے پانچ سالہ بھتیجے کو "ڈاکٹر مار دھاڑ” کے پاس لے گیا. ہرچند کہ میں نے بھتیجے کی "چھٹی حس” کا تھیلا گھر رکھ کے جانا چاہا مگر وہ نہ مانا. خیر ڈاکٹر نے تفصیلی معائنہ کرکے مجھ سے اکیلے میں بات کرنا چاہی. میری "چھٹی حس” نے فوراً میرے بھتیجے میں کسی بچگانہ کمزوری کی موجودگی کا عندیہ دیا.
خیر استفسار پر ڈاکتر مار دھاڑ نے بتایا کہ بھتیجے میں ‘وٹامن پٹائ’ کی کمی ہے. اس کا علاج یہ ہے کہ اس کو ایک ‘ٹیکۂ چماٹ’ لگایا جائے. گفتگو کے دوران ہی بھتیجا وہیں آ دھمکا اور ہماری اشکال دیکھ کر اس کی "چھٹی حس” نے فوراً اس کو طریقۂ علاج سے آگاہ کیا. صورتحال بھانپتے ہی بچے نے رونے میں عافیت جانی اور اس قدر زور سے چلایا کہ ہسپتال سے ملحقہ قبرستان میں مردے اٹھ کھڑے ہوئے، گویا کہ قیامت آگئی ہو. اس کے علاوہ اس ایٹمی چیخ کا نتیجہ یہ نکلا کہ چاروں اطراف میں چار چار کلومیٹر تک بھینسوں کے تھن سوکھ گئے، مجبوراً گوالوں کو خود دودھ دینا پڑا. اگر ان گوالوں نے یہ دودھ چالیس پچاس برس قبل دیا ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ اس کو پینے والے آج سیاستدان ہیں…آج کل یہ پینے والے زنانہ مرد اور مردانہ عورتیں ہیں یعنی ٹک ٹاکرز ہیں.
میری "چھٹی حس” کا چھپکلیوں سے چھتیس کا آکڑا رہا ہے اور چھپکلیوں کا مجھ سے. ہرچند کہ متعدد بار چھپکلیوں کی نسل میں کمی کے واسطے اقدام کرچکا ہوں مگر وہ سب نر تھے. عورت پر ہاتھ اٹھانا ہماری تہذیب کے خلاف ہے لیکن بیوہ چھپکلیاں ہمیشہ مجھ سے بدلہ لینے آجاتی ہیں. یہ تو بھلا ہو میری "چھٹی حس” کا جو اس شر سے محفوظ رہنے میں مدد دیتی ہے.
ایک بار الماری میں ٹنگی شلوار نکال کر پہنی تو "چھٹی حس” نے کسی گڑبڑ کا اشارہ دیا. اچانک شلوار کی لمبائی پر سفر کرتے ہوئے پائنچے سے ایک آدھ پاؤ کی چھپکلی برآمد ہوئی. میرے ذہن میں خوف کے بجائے سوال پیدا ہوا کہ یہ باہر کیوں آگئی ہے؟ "چھٹی حس” نے فوراً جواب پیش کیا، "غالباً چھپکلی کو اس بات کا احساس ہوگیا ہوگا کہ جس طرح ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتی، اسی طرح ایک شلوار میں دو چھپکلیاں نہیں رہ سکتی…..”
سنا ہے کہ ایک مخصوص شاعرہ نے اپنی نوزائیدہ صنفِ شاعری کے دفاع میں اپنی "چھٹی حس” سے کام لیتے ہوئے اس کو "غزم” قرار دیا ہے. دراصل مجھے نظم و غزل کے اس ملاپ پر کوئی اعتراض نہیں ہے. البتہ میرا مشورہ ہے کہ غزم کی بجائے نظم کے ‘ن’ اور غزل کے ‘زل’ کا ملاپ کروا کر نئی صنفِ شاعری کو "نزل” کا نام دیا جائے. اس کی وجہ یہ ہے کہ نزل، نزول، انزال ایک ہی شاخ کے الفاظ ہیں. اس لیے جب مخصوص شاعرہ کو "چھٹی حس” کے ذریعے آمد ہوگی اور دو منٹ میں "نزل” تیار ہوجائے گی تو وہ یہ کہہ سکیں گی کہ مجھے ‘سرعت انزال’ ہوتا ہے.
کہتے ہیں ‘حس مزاح’ ہی "چھٹی حس” ہوتی ہے. میں نے بھی اپنی "چھٹی حس” کو اچھی طرح برتا ہے اور اب میری "چھٹی حس” کہہ رہی کہ کوئی بھی حریف میری "چھٹی حس”کو مات نہیں دے سکتا. واللہ اعلم…!








