تمام چہرے ہیں چہروں کے نام ہیں ہی نہیں

ilyas

میں دیکھتا ہوں انہیں روز گزر جاتا ہوں
تمام چہرے ہیں چہروں کے نام ہیں ہی نہیں

الیاس بابر اعوان،شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار، نقاد، محقق، کالم نگار

پیدائش:28 نومبر 1976ء

تعلیم:ایم اے (اردو)
پی ایچ ڈی
مادر علمی:جامعہ پنجاب
اصناف:شاعری، تنقید، افسانہ
ناول، تحقیق، ترجمہ
نمایاں کام:
۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)خواب دگر
۔ (2)نووارد
۔ (3)ایک ادھوری سرگزشت
۔ (4)معاصر متن کی دریافت
۔ (5)جدید تنقیدی تصورات
۔ (6)منحرف
مستقل پتا:ایچ۔141، آبادی نمبر2
دیم اسٹریٹ،ٹنچ بھاٹہ، راولپنڈی

الیاس بابر اعوان راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر اور افسانہ نگار ہیں۔
ولادت
۔۔۔۔۔
الیاس بابر اعوان کی پیدائش 28 نومبر 1976ء، راولپنڈی، صوبہ پنجاب، پاکستان میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام محمد افضل اعوان ہے۔
مادرِ علمی
۔۔۔۔۔
۔ (1)فیڈرل گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول
۔ نمبر ا صدر لاہور
۔ (2)فیڈرل گورنمنٹ ڈگری کالج
۔ لاہور کینٹ
۔ (3)گورنمنٹ شالیمار ڈگری کالج
۔ باغبانپورہ لاہور
۔ (4)نیشنل یونیورسٹی آف مارڈرن لینگوئجز
۔ اسلام آباد
۔ (5)رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی
۔ اسلام آباد
۔ (6)بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی
۔ اسلام آباد
تعلیم
۔۔۔۔۔
۔ (1)پی ایچ ڈی اسکالر
۔ (انگریزی ادب)
۔ (2)پی جی ڈی
۔ ( پروفیشنل ایتھکس اینڈ ٹیچنگ میتھڈولجیز)
۔ (3)ایم فل (انگریزی ادب)
۔ (4)ایم اے انگریزی ادب و لسانیات
۔ (5)ایم اے اردو ادب و لسانیات
۔ (6)ایم ایڈ
شاعری
۔۔۔۔۔۔
اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں شعر و ادب کی دنیا میں وارد ہوئے۔ اسلام آباد میں نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز میں انگریزی ادب کے لیکچرر ہیں۔ اردو، انگریزی اور پنجابی میں لکھتے ہیں۔ حلقہ ارباب ِ ذوق راولپنڈی کے چار سال تک سیکرٹری رہے اور جدیدادبی تنقیدی فورم کے بانی ہیں۔ اردو میں تنقید، نظم، غزل اور افسانے کے ساتھ ساتھ انگریزی میں شاعری اور افسانے بھی لکھتے ہیں۔
مجموعہ کلام
۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)خوابِ دِگر (شعری مجموعہ)-2012ء
۔ پبلشر: رمیل پبلیشرز راولپنڈی
۔ (2)نووارد ( نظمیہ مجموعہ)- 2016ء
۔ سانجھ پبلشرز لاہور نے شائع کیا
زیر طباعت
۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)معاصر متن کی دریافت:
۔ (تنقیدی مضامین)
۔ پبلشر: کتاب محل لاہور
۔ (2)جدید تنقیدی تصورات
۔ مترجم: الیاس بابر اعوان
۔ پبلشر: کتاب محل لاہور
۔ (3)منحرف۔ نظموں کا مجموعہ
۔ (زیر ـ اشاعت)

غزل
۔۔۔۔۔
صرف آزار اٹھانے سے کہاں بنتا ہے
مجھ سا اسلوب زمانے سے کہاں بنتا ہے
آنکھ کو کاٹ کے کچھ نوک پلک سیدھی کی
زاویہ سیدھ میں آنے سے کہاں بنتا ہے
کچھ نہ کچھ اس میں حقیقت بھی چھپی ہوتی ہے
واقعہ بات بنانے سے کہاں بنتا ہے
حسن یوسف سی کوئی جنس بھی رکھو اس میں
ورنہ بازار سجانے سے کہاں بنتا ہے
اس میں کچھ وحشت دل بھی تو رکھی جاتی ہے
باغ بس پھول اگانے سے کہاں بنتا ہے
راستہ بنتا ہے تشکیل نظر سے بابرؔ
خاک کی خاک اڑانے سے کہاں بنتا ہے

غزل
۔۔۔۔۔
آنکھ کھلے گی بات ادھوری رہ جائے گی
ورنہ آج مری مزدوری رہ جائے گی
جی بھر جائے گا بس اُس کو تکتے تکتے
کچی لسی میٹھی چُوری رہ جائے گی
اُس سے ملنے مجھ کو پھر سے جانا ہوگا
دیکھنا پھر سے بات ضروری رہ جائے گی
تھوڑی دیر میں خواب پرندہ بن جائے گا
میرے ہاتھوں پر کستوری رہ جائے گی
تم تصویر کے ساتھ مکمل ہو جاؤ گے
لیکن میری عمر ادھوری رہ جائے گی

غزل
۔۔۔۔۔
ٹوٹی میز اور جلی کتابیں رہ جائیں گی
ڈرون گرے گا امن کی باتیں رہ جائیں گی
لڑنے والے روشن صبحیں لے جائیں گے
میری خاطر اندھی شامیں رہ جائیں گی
سچ لکھنے والے سب ہجرت کر جائیں گے
بازاروں میں قلم دواتیں رہ جائیں گی
یوں لگتا ہے رستے میں سب لٹ جائے گا
گھر پہنچوں گا تو کچھ سانسیں رہ جائیں گی
امیدوں پر برف کا موسم آ جائے گا
دیواروں پر دیپ اور آنکھیں رہ جائیں گی
ہم دروازے میں ہی روتے رہ جائیں گے
جانے والوں کی بس باتیں رہ جائیں گی

غزل
۔۔۔۔۔
غلام زادوں میں کوئی غلام ہے ہی نہیں
ہمارے شہر میں سچ کا نظام ہے ہی نہیں
یہ لوگ جلد ہی پتھر میں ڈھلنے والے ہیں
یہاں کسی سے کوئی ہم کلام ہے ہی نہیں
میں دیکھتا ہوں انہیں اور گزرتا جاتا ہوں
تمام چہرے ہیں چہروں کے نام ہے ہی نہیں
تمہاری مرضی ہے رکھ لو ہمیں یا ٹھکرا دو
ہمارے پاس محبت کا دام ہے ہی نہیں
یہ لوگ اسے تری تصویر ہی سمجھتے ہیں
پر اس کے جیسا کوئی خوش کلام ہے ہی نہیں
وہاں پہ خوابوں کو خیرات کر کے چلتے بنو
جہاں شعور حلال و حرام ہے ہی نہیں
ذرا سی لہجے کی نرمی سے مان جائیں گے
کہ بگڑے لوگوں کا کوئی امام ہے ہی نہیں

منقول

Comments are closed.