ملک بھر کے وکیل رہنماؤں نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف ایک ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے، جسے ماورائے آئین اور عدلیہ پر حملہ قرار دیا گیا ہے۔ سینئر وکیل حامد خان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ یہ آئینی ترمیم قابل قبول نہیں اور تمام وکلا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسے ہر صورت میں روکا جائے گا۔حامد خان نے مزید کہا کہ صرف جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں چیف جسٹس کو قبول کیا جائے گا، اور اس سلسلے میں ایک نیشنل ایکشن کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جیسی کہ 2002 اور 2007 میں بنائی گئی تھی۔ انہوں نے احتجاج کی کال دیتے ہوئے کہا کہ وکلا 25 اکتوبر کو یوم نجات منائیں گے۔
کوئٹہ میں وکیل رہنما علی احمد کرد نے کہا کہ وکلا ایکشن کمیٹی 26 اکتوبر کے بعد ایک اجلاس میں اپنی حکمت عملی کا اعلان کرے گی اور آئینی ترمیم کو چیلنج کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر سڑکوں پر "دمادم مست قلندر” ہوگا، جو وکلا کی مزاحمت کی ایک علامت بنے گا۔راحب بلیدی نے دیگر وکلا سے اپیل کی کہ جو لوگ اس ترمیم کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ ان کی تحریک میں شامل ہو جائیں۔ لاہور میں گفتگو کرتے ہوئے سلمان اکرم راجا نے واضح کیا کہ اب دفاع کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر عدالتوں میں آواز بلند کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تو وکلا سڑکوں پر احتجاج کریں گے۔
اس کے علاوہ، وکیل رہنما لطیف کھوسہ اور عابد زبیری نے بھی آئینی ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے اپنے عزم کا اعادہ کیا کہ وکلا اپنے حقوق کے لیے لڑیں گے۔ یہ تحریک وکلا کی اجتماعی قوت کو اجاگر کرتی ہے اور آئینی ترمیم کے خلاف ایک واضح اور مضبوط مزاحمت کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ ملک گیر تحریک وکیل برادری کی جانب سے آئینی حقوق کے تحفظ کی ایک بڑی کوشش سمجھی جا رہی ہے، جس میں وکلا کی بڑی تعداد شرکت کرے گی۔ یہ تحریک آئینی ترمیم کے خلاف عوامی رائے کو منظم کرنے اور قانونی نظام میں شفافیت کو برقرار رکھنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کے علاوہ کوئی چیف جسٹس قبول نہیں،حامد خان
