چینی کی قیمتوں میں بے لگام اضافہ: حکومتی وعدوں کی ناکامی اور عوام کی پریشانی
تحریر: حبیب اللہ خان، نامہ نگار باغی ٹی وی بہاولپور
پاکستان میں چینی کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ نہ صرف عوام کے لیے ایک بڑا معاشی دھچکا ہے بلکہ حکومتی پالیسیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔ گزشتہ برس شوگر ملز مالکان اور ڈیلرز نے حکومت کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ چینی کی برآمد سے نہ صرف زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا بلکہ ملکی معیشت کو بھی تقویت ملے گی۔ ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ برآمدات کے باوجود مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں یا دستیابی پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔
ان دعوؤں کی بنیاد پر حکومت نے چینی کی برآمد کی اجازت دے دی اور پُر اعتماد انداز میں کہا کہ کرشنگ سیزن سے قبل نہ چینی کی قلت ہوگی، نہ قیمتیں بڑھیں گی، اور نہ ہی درآمد کی ضرورت پیش آئے گی۔ لیکن آج صورتحال مکمل طور پر اس کے برعکس ہے۔
چینی کی قیمتیں بے قابو ہو چکی ہیں، مارکیٹ میں قلت پیدا ہو رہی ہے، اور اب حکومت کو دوبارہ چینی درآمد کرنے کے لیے ڈالرز خرچ کرنے پڑ رہے ہیں۔ دسمبر 2024 میں جو چینی ایکس مل ریٹ پر 125 سے 130 روپے فی کلو دستیاب تھی، وہ اب ریٹیل مارکیٹ میں 190 سے 200 روپے فی کلو کی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اوچ شریف میں چینی کی قیمت 6 روپے کے اضافے کے ساتھ 190 روپے، احمد پور میں 5 روپے اضافے سے 195 روپے، اور بہاولپور میں صرف ایک ماہ میں 10 روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں قیمت 200 روپے فی کلو کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے۔
شوگر ڈیلرز نے برآمدات کے ذریعے ڈالر تو ضرور کمائے، لیکن اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑا۔ برآمدات سے حاصل ہونے والا زرمبادلہ بے معنی ہو جاتا ہے جب ملک کو دوبارہ وہی چینی درآمد کرنے کے لیے قیمتی ڈالرز خرچ کرنے پڑیں۔ یہ صورتحال حکومتی منصوبہ بندی میں خامیوں، شفافیت کی کمی اور فیصلہ سازی میں مفادات کے تصادم کو بے نقاب کرتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جنہوں نے اس بحران کو جنم دیا؟ ماہرین کے مطابق چینی کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجوہات میں شوگر ملز کی جانب سے پیداوار کے اعداد و شمار میں ہیر پھیر، برآمدات کو غیر ضروری طور پر ترجیح دینا، اور مقامی مارکیٹ کی طلب کو نظر انداز کرنا شامل ہیں۔ شوگر ملوں نے مبینہ طور پر پیداوار کو جان بوجھ کر کم ظاہر کیا تاکہ برآمدات کی اجازت حاصل کی جا سکے، جس کے نتیجے میں مقامی مارکیٹ میں چینی کی دستیابی متاثر ہوئی۔ عالمی منڈی میں قیمتوں کے اضافے نے بھی درآمدات کو مزید مہنگا کر دیا، جس کا بوجھ بالآخر صارفین پر پڑا۔
چینی ایک بنیادی ضرورت کی شے ہے، اور اس کی قیمتوں میں اضافہ براہ راست عوام کی قوتِ خرید پر ضرب لگا رہا ہے۔ غریب اور متوسط طبقہ، جو پہلے ہی مہنگائی کی لپیٹ میں ہے، چینی کے اس ہوشربا اضافے سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ بیکریوں، مٹھائی فروشوں اور چینی استعمال کرنے والی دیگر صنعتوں پر بھی اس بحران کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بحران کا حل کیا ہے؟ حکومت کو فوری طور پر چینی کی برآمدات پر پابندی عائد کرنی چاہیے اور مقامی ضروریات کو ترجیح دینی چاہیے۔ شوگر ملز کی پیداوار اور اسٹاک کی کڑی نگرانی کی جائے تاکہ اعداد و شمار میں ہیر پھیر روکی جا سکے۔ قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے لیے سبسڈی یا دیگر اقدامات پر غور کیا جائے۔ اگر حکومت نے فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے تو یہ بحران نہ صرف معیشت بلکہ سیاسی استحکام کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
چینی کی قیمتوں میں بے قابو اضافہ نہ صرف حکومتی وعدوں کی ناکامی کا نتیجہ ہے بلکہ ناقص منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی کے عمل میں شفافیت کی عدم موجودگی کا ثبوت بھی ہے۔ یہ وقت ہے کہ حکومت سنجیدگی سے اپنی ترجیحات کا ازسرِنو جائزہ لے اور عوامی مفاد کو اولیت دے، ورنہ عوامی اعتماد اور ملکی معیشت دونوں شدید خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔









