چترال:سیلاب متاثرین10 دن گذرنے کے باوجود حکومتی امداد کےمنتظر، لوگ پانی کی بوند بوند کوترسنے لگے
چترال،باغی ٹی وی (نامہ نگارگل حماد فاروقی) جولائی کے 22 تاریخ کو جو تباہ کن سیلاب آیا تھا اس نے چترال کا نقشہ بدل دیا تھا۔ سیلاب کی سطح اتنا بلند تھی کہ دریا سے پانچ فٹ اونچا یہ ریلہ بہہ رہا تھا، جس کے نتیجے میں آس پاس کے مکانوں، دکانوں، مارکیٹ، ورکشاپ، کھڑی فصلوں، زیر کاشت زمین، باغات اور کھیتوں کو بھی بہت نقصان پہنچا۔ سیلاب کی وجہ سے آبپاشی اور پینے کے پانی کی پائپ لائن اور نہریں بھی بہہ گئیں۔ گولین سے تقریباً چالیس کروڑ روپے کی لاگت سے لانے والا پینے کے پانی کی پائپ لائن ہر سال سیلاب کی وجہ سے تباہ ہورہی ہے۔ معلوم نہیں کہ محکمے میں تیکنیکی اور پیشہ ورانہ مہارت کی کمی ہے یا ایمانداری اور خلوص کی فقدان ہے۔ یہ پائپ لائن جب تعمیر کی گئی تھی اسی وقت بھی ہماری ٹیم نے اس کا سروے کرکے محکمہ پبلک ہیلتھ انجنیرنگ سے مطالبہ کیا تھا کہ اس پائپ لائن کی مستقل بنیادوں پر حفاظت کیلئے ضروری اقدامات اٹھائے جائیں مگر کچھ نہیں ہوا اور ایک سال بعد یہ سیلاب کا نذر ہوگئی۔ اس کے بعد ہر سیلاب میں بری طرح اس پانی کی پائپ لائن کا متاثر ہونامعمول کی بات بن چکی ہے۔
چترال:سیلاب متاثرین ابھی تک حکومتی امداد کے منتظردس دن گذرنے کے باوجود پینے کے پانی کی سپلائی بحال نہ ہوسکی۔ لوگ پینے کے پانی کی بوند بوند کوترسنے لگے،چیف سیکرٹری کے پی کاکہنا تھا کہ پینے کے پانی کی سپلائی بحال ہوچکی ہے چترال سے گل حماد فاروقی رپورٹ@BaaghiTV @MumtaazAwan pic.twitter.com/6TeeYITgR7
— Dr.Mustafa Badani (@DrMustafa983) July 31, 2023
پچھلے سالاس پائپ لائن کازیادہ ترحصہ دریا برد ہوا تھا اور ایک سال تک لوگ پینے کی پانی سے محروم تھے جس کی بحالی پر کروڑوں روپے تو لگ گئے مگر ناقص منصوبہ بندی اور غلط ڈیزائن کی وجہ سے یہ پائپ لائن ایک بار پھر سیلاب کی وجہ سے بری متاثر ہوئی ہے اور لوگ 22 جولائی سے لیکر آج پینے کے پانی سے محروم ہیں اور متاثرہ لوگ پانی کی بوند بوند کوترس رہے ہیں۔
اس کے برعکس انگار غون شاہ شاہ واٹر سپلائی سکیم جو جرمنی نے چالیس سال پہلے بنائی تھی وہ ابھی تک بحال ہے اور اس وقت پورے چترال ٹاؤن کو انگار غون والے منصوبے سے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ چیف سیکرٹری خیبر پختون خواہ ندیم اسلم چوہدری نے سیلاب کے فور! بعد چترال کا دورہ کیا تھا اور انہوں نے ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ ان کو شائد متعلقہ محکمے یا ضلعی انتظامیہ نے غلط بیانی سے کام لیا تھا کہ پینے کے پانی کی سپلائی بحال ہوچکی ہے اور لوگوں کو پانی مل رہا ہے ،حالانکہ سیلاب متاثرین ایک ایک بوند پانی کیلئے پچھلے دس دنوں سے ترس رہے ہیں اور گولین واٹرسپلائی بند پڑی ہے۔
دنین میں سب سے بڑیگاڑیوں کی ورکشاپ ہے جہاں 120 دکانوں پر مشتمل پورے مارکیٹ میں متعدد ورکشاپ، سپئیر پارٹس کے دکانیں، سروس اسٹیشن اور ایک ڈرائیونگ سنٹر بھی ہے۔ 22 جولائی کو سیلاب کا سطح اتنا بلند تھی کہ دریا کے کنارے ان دکانوں کو توڑ کر اس مارکیٹ میں پانی داخل ہوگیا اور یہاں سیلاب نے تباہی مچادی۔ لوگوں نے اپنی جانیں تو بچالیں مگر یہاں کھڑی گاڑیاں اب بھی سیلاب کی تباہی کی گواہی دے رہی ہیں، ان گاڑیوں ملبے سے نکالنے کی بھی کسی ادارے نے زحمت تک نہیں کی۔ مستری اسحاق اور اس کے والد کا کہنا ہے کہ ہمارا کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے مگر ابھی تک ان متاثرین کو انتظامیہ کی جانب سے ایک کلو آٹا تک نہیں ملا ہے اور یہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بے یار ومدد گار ہوکر بیلچے سے یہ ملبہ ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ پوری مارکیٹ تباہ ہوئی ہے ان کو کھانا بھی نہیں ملتا۔
آصف خان کا گھر دنین گول نالے کے اوپر واقع ہے ان کا کہنا ہے کہ رات کو تین بجے اچانک سیلاب آیا اور اس نے میری پوری دنیا اجاڑ دی۔ میرا ایک معذور بیٹا اور چند بیٹیاں ہیں ہم نے رات کو بھاگ کر کھلے آسمان تلے رات گزاری۔ ان کا کہنا ہے کہ میرے گھر کے اوپر دس فٹ اونچا ملبہ پڑا ہے اور ہم بیلچے اور کدال سے اس کو صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میرے معذور بیٹے کی ادویات بھی سیلاب کے ملبے تلے دب گئی ہیں اور اب میں اس معزور بیٹے کیلئے ادویات بھی نہیں خرید سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ سیلاب نے گویا میرا سب کچھ تباہ کردیا۔ انتظامیہ کی جانب سے مجھے ایک خیمہ(ٹینٹ) اور بیس کلو آٹا اور تھوڑا دیگرخوراک کا سامان ملا ہے مگر میرے مکان دوبارہ بنانے کیلئے مجھے ایک پیسہ بھی نہیں ملا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اپنی پالیسی کے مطابق دس لاکھ روپے بھی دے تو مہنگائی کے اس دور میں یہ مکان اب پچاس لاکھ میں بھی تعمیر نہیں ہوسکتا۔
کمال الدین ایک تاجر اور سماجی کارکن ہے ان کا کہنا ہے اس ورکشاپ میں جتنے دکاندار اور مستری متاثر ہوئے ہیں وہ سارا دن سیلاب کا ملبہ ہٹانے میں مصروف رہتے ہیں مگر شام کو جب گھر خالی ہاتھ جاتے ہیں تو ان کے بچے بھی بہت مایوس ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب کی اصل وجہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا ٹھیکیدار ہے جس نے بونی شندور سڑک کی تعمیر کے وقت بڑے بڑے پتھر اور ٹنوں کے حساب سے سارا ملبہ دریا میں گرایا جس سے دریا کی سطح بلند ہوکر اس تباہ کن سیلاب کا باعث بنی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اس ٹھیکیدار کے خلا ف 21 ادروں کو درخواستیں دی ہیں اور ابھی ہم نے ایس ایچ او تھانہ چترال کو بھی تحریری درخواست دی ہے کہ اس کے خلاف FIR یعنی مقدمہ درج کیا جائے مگر لگتا ہے کہ اس کے ہاتھ بہت لمبے ہیں ابھی تک اس کے خلاف کسی بھی ادارے نے کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ انہوں نے چیف سیکرٹری خیبر پحتونخواہ سے اپیل کی ہے کہ این ایچ اے کے متعلقہ پراجیکٹ ڈائریکٹر، متعلقہ عملہ اور اس ٹھیکیدار کے خلاف انکوائری کرکے سخت قانونی کارروائی کی جائے کیونکہ ان کی مجرمانہ غلفت کی وجہ سے نہ صرف تباہ کن سیلاب نے لوگوں کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا بلکہ ماحولیاتی قانون کا بھی خلاف ورزی کرتے ہوئے آبی حیات کو بھی نقصان پہنچایا۔ ہمارے نمائندے نے متعلقہ تعمیراتی کمپنی، ٹھیکیدار کے پراجیکٹ منیجر کو بار بار کال کرکے ان کا مؤقف جاننے کی کوشش کی مگر اس نے ہر بار فون کو مصروف کرکے بات کرنے سے گریز کیا۔
سیلاب نے اورغوچ، کوغذی، کاری، اوچوشت، گہتک، دنین، چترال ٹاؤن، آیون اور دیگر علاقوں میں متعدد مکانات، دکانوں او ر زمین کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس وقت لوگوں نے مکئی کا فصل بویا ہے اور ان کو سیراب کرنے والی ندی نالیاں سیلاب میں بہہ چکے ہیں اگر فوری طورپر آبپاشی کی یہ ندیاں بحال نہیں کی گئی تو خدشہ ہے کہ مکئی کی کھڑی فصل تلف ہوکر لوگوں کو ایک اور نقصان کا سامنا کرنا پڑے۔
تحریک تحفظ چترالی کے صدر نعیم انجم اور ان کے ساتھیوں نے اپنے بساط کے مطابق مختلف متاثرہ علاقوں میں جاکر متاثرین کا ہاتھ بٹایا اور ن کے ساتھ ان کے گھروں سے ملبہ ہٹانے میں مدد کی۔ انہوں نے بھی حکومت کی بے حسی پر نہایت مایوسی کا اظہار کیا کہ اورغوچ اور دیگر متاثرہ علاقوں میں ابھی تک انتظامیہ کی جانب سے نہ کوئی گیا ہے اور ان لوگوں کو کوئی امداد دی گئی ہے۔
اوچوسٹ نالے سے متاثر ہونے والا معذور شحص غلام یوسف جو شیاقو ٹیک میں رہتا ہے اس نالے سے اس کا مکان مکمل طو رپر تباہ ہوا ہے ان کا کہنا ہے کہ میں معذور ہوں اور خود اپنے تباہ شدہ مکان سے ملبہ بھی نہیں ہٹا سکتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اپنے اہل خانہ سمیت کسی رشتہ دار کے گھر میں رہنے پر مجبور ہے مگر وہ کب تک دوسروں پر بوجھ بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں ابھی تک کہیں کوئی مدد نہیں ملی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ فوری طور پرمیری مالی مد د کی جائے تاکہ اپنے تباہ شدہ مکان کو دوبارہ تعمیر کرسکوں۔
اعجاز ا حمد خان ویلیج کونسل کوغذی کا کونسلر ہے ان کا کہنا ہے کہ 2015, 2019, 2021 میں بار بار سیلاب آیا۔ ان کا کہنا ہے کہ دو سال قبل جب یہاں سیلاب آیا تھا اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے ذمہ دار لوگ اور وزیر اعلےٰ خیبر پحتون خواہ کے اقلیتی امور پر معاون خصوصی وزیر زادہ کیلاش نے اپنی ٹیم کے ہمراہ دورہ کرکے اس علاقے کی حفاظت کیلئے بیس لاکھ روپے کا فنڈ رکھا ٹینڈر بھی ہوئے اور ورک آرڈر بھی جاری ہوا مگر عملی کام ابھی تک نہیں ہوا اور وہ صرف زبانی جمع خرچ تھی ا ن کے اس جھوٹے وعدے اور اعلان کی وجہ سے ہم نے کسی دوسرے سرکاری یا غیر سرکاری ادارے نہیں کیا اور PTI والوں نے بھی فنڈ فراہم نہیں کیا اور کام نہیں ہوا جس کا ہم ابھی تک خمیازہ بھگت رہے ہیں ان متاثرین نے حکومتی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے ساتھ فوری طور پر مالی طور پر مدد کیا جائے تاکہ یہ اپنے تباہ شدہ مکانوں کو دوبارہ تعمیرکرکے اپنے بچوں کو سرچھپانے کی جگہہ فراہم کرسکیں اور ساتھ ہی آبپاشی اور آبنوشی کی تباہ شدہ پائپ لائن اور ندیاں بھی بحال کی جائیں تاکہ ان کو پانی کی فراہمی بھی یقینی بنایا جاسکے۔