چترال،باغی ٹی وی (نامہ نگارگل حماد فاروقی) امن و مان دوبارہ بحال کرنے کیلئے جماعت اسلامی کے زیر اہتمام گرینڈ امن جرگہ کا انعقاد
چترال حالیہ دنوں میں جو ناخوشگوار واقعہ پیش آیا جس میں سیکورٹی فورسز کے چار اہلکار شہید اور سات زحمی ہوئے اس کے بعد چترال کی فضاء نہایت سوگوار تھی۔ عوام نہایت غم اور خوف کی زندگی گزار رہے ہیں۔ چترال ایک مثالی امن کا ضلع تھا جہاں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح آتے ہیں اور زیادہ تر سیاح وادی کیلاش کارخ کرتے ہیں۔ مگر ٹی ٹی پی کی جانب سے بمبوریت وادی کیلاش کے پاس چترال سکاوٹس کی ایک پوسٹ اور جنجیریت کوہ میں بھِی چترال سکاوٹس کے پوسٹ پر حملہ کرکے چار اہلکاروں کو شہید کیا تھا۔ اس کے بعد پورے چترال کی فضاء نہایت سوگوار ہے اور لوگ پریشان ہیں

جماعت اسلامی کے زیر اہتمام چترال کے مثالی امن کو دوبارہ بحال کرنے کیلئے ایک گرینڈ امن جرگہ بلایا گیا۔ گرینڈ امن جرگہ میں تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنماوں اور سنی، اسماعیلی دونوں کمیونٹی کے لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔گرینڈ امن جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے علاقے کے عمائدین نے کہا کہ چترال کے لوگ ہمیشہ پاکستان اور فوج کے وفادار رہے ہیں مگر حالیہ دنوں میں جو نا خوشگوار واقعہ پیش آیا اس سے ہر چترالی نہایت پریشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ چترال میں اتنی زیادہ ایجنسیاں کام کرتی ہیں اور ان کو پہلے اطلاع بھِی پہنچی تھی مگر اس کے باوجود بھی اس کی روک تھام کیلئے صحیح معنوں میں اقدامات نہیں کئے گئے جو قابل افسوس بات ہے۔

مقررین نے کہا کہ بارڈر پولیس یعنی چترال لیویز کا کام ان سرحدوں کا حفاظت کرنا ہے مگر ڈپٹی کمشنر اوراسسٹنٹ کمشنر کے دفتر میں ان لیویز کا پورا جلوس موجود ہوتا ہے اور زیادہ تر لیویز ڈی سی ، اے سی اور دیگر افسران کے بنگلوں میں ان کے ذاتی کاموں پر مامور ہیں جوسراسر غلط ہے۔ ان کو اس کام کیلئے سرکاری خزانے سے تنخواہیں نہیں دی جاتی کہ وہ ڈی سی کے بال بچوں یا اس کے گھر کے افراد کی ذاتی طور پر خدمت کرتے رہیں بلکہ ان کا کام ہے کہ سرحدوں کی حفاظت کریں۔ انہوں نے کہا چترال میں افسران کے وی وی آئی پی پروٹوکول کو بھی ختم ہونا چاہئے ۔ کئی یورپی ممالک کے صدور اور وزیر اعظم اپنے دفاتر کو سائیکل پر آتے ہیں یا بغیر کسی پروٹوکول کے مگر یہاں تو ایک معمولی سرکاری ملازم کے آگے بھی پروٹوکول کی پوری فوج جاتی ہے جس سے عوام میں مایوسی اور نفرت پیدا ہوتی ہے۔

مقررین نے کہا کہ چترال میں دنیا کی واحد اورمخصوص ثقافت کے حامل لوگ کیلاش لوگ رہتے ہیں ان کی مخصوص ثقافت کو دیکھنے کیلئے دنیا بھر سے سیاح یہاں آتے ہیں مگر وادی کیلاش سے متصل ایک پوست پر طالبان کے حملے نے نہ صرف سیاحوں بلکہ مقامی لوگوں میں بھِی خوف و ہراس کی فضا پیدا کی ہے۔ اگر صورت حال یہ رہی تو وہاں کوئی ملکی یا غیر ملکی سیاح نہیں آئے گا اور ان لوگوں کی گزربسر سیاحت سے ملنے والی آمدنی پر ہے اگر وہ ختم ہوئی تو کیلاش کے لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہوں گے۔

اس موقع پر ایک متفقہ قرارداد بھی منظور ہوئی جس کے تحت حکومت سےمطالبہ کیا گیا کہ حالیہ دہشت گرد حملے میں جو ہمارے چار جوان شہید ہوئے ہیں ،چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر چترال کا دورہ کریں اور یہاں کے عمائدین سے مل کر اس مسئلے کے مستقل حل کیلئے لوگوں سے مل بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل طے کریں ۔قرارداد کے ذریعے مطالبہ کیا گیا کہ چترال کے سرحدی علاقے کے لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق اور سہولیات فراہم کرکے ان کی احساس محرومی کو ختم کیا جائے تاکہ وہ وطن عزیز کے ہمیشہ کی طرح وفادار رہیں۔ قرارداد کے ذریعے اس بات پر نہایت تشویش کا اظہار کیا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں، سیکورٹی فورسز اور ایجنسیوں کی موجودگی میں اس قسم کے واقعات کا ہونا لمحہ فکریہ ہے۔قرارداد کے ذریعے پر زور مطالبہ کیا گیا کہ چترال کے اندر سیکورٹی اداروں کے اہلکار اپنی فرض منصبی کے علاوہ دیگر امور میں دخل اندازی سے اجتناب کریں۔ قرارداد کے ذریعے مطالبہ کیا گیا کہ چترال بارڈر پولیس کو افسر شاہی کی پروٹوکول کی بجائے ان کو سرحدات پر بھیج کر ا ن کی حفاظت پر مامور کیا جایے۔

یہ بھِی مطالبہ کیا گیا کہ چترال کے اندر افسران کی نقل و حرکت کے وقت بے جاء پروٹوکول سے اجتناب کریں اس سے لوگوں میں نفرت اور مایوسی پھیل جاتی ہے۔اس بات پر نہایت افسوس اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا کہ چترال میں ہونے والے ناخوشگوار واقعات کے دوران انتظامیہ کا عوام کے ساتھ رابطہ نہ رکھنا اور ان کو اندھیرے میں رکھنا قابل مذمت ہے۔اس سے عوام اور سرکار میں ایک دراڑ پیدا ہوتی ہے۔اس بات کا فیصلہ ہوا کہ چترال میں امن و امان کی فضا ء کو دوبارہ پیدا کرنے کیلئے دروش، گرم چشمہ، اپر چترال اور دیگر علاقوں میں بھی گرینڈ امن جرگے کا اہتمام کیا جائے گا۔ اس امن جرگے میں تمام طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے کثیر تعداد میں لوگوں نے شر کت کی جو بعد میں مولانا شیر عزیز سابق امیر جماعت اسلامی کی دعاییہ کلمات کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔

Shares: