"چولستان میں خشک سالی اور قوم کو پکار” محمد عبداللہ

صحرائے چولستان جنوبی پنجاب میں موجود صحرا ہے جو سندھ کے صحرائے تھر اور بارڈر کے دوسری طرف انڈیا کے صحرائے راجستھان سے ملتا ہے. جنوبی پنجاب میں ہی پنجاب کا دوسرا صحرا "تھل” بھی واقع تھا.

تھل کا صحرا کہ جس کو "تھل” نہر کے پانی سے سیراب کرکے آباد کیا جاچکا ہے اور اب خوشاب، میانوالی، لیہ اور بھکر کے علاقوِں میں ریت کے ٹیلوں سے ہی یہاں صحرا کا گمان ہوتا ہے جبکہ بیشتر زمینیں کاشتکاری کے اور دیگر مقاصد کے لیے کارآمد بنائی جاچکی ہیں.

جبکہ چولستان کا صحرا بہاولنگر کے علاقوں سے شروع ہوکر، بہاولپور سے ہوتا ہوا رحیم یارخان سے سندھ کے صحرائے تھر سے مل جاتا ہے. ماضی میں یہ دریائے ہاکڑا کی بدولت یہ علاقہ سرسبز و شاداب علاقہ تھا جو پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے صحرا بنتا چلا گیا.

یہ صحرا بڑا اہم تجارتی روٹ تھا. اس صحراء میں موجود جابجا قلعے اسی تجارتی روٹ پر واقع تھے جن میں کچھ کی باقیات اور نشان ملتے جیسے رحیم یار خان میں بھاگلہ قلعہ وغیرہ ہیِں جبکہ کچھ اپنی حالتوں میں موجود ہیں جیسے بہاولپور میں دراوڑ قلعہ ہیں.

گزشتہ دنوں میں پڑنے والی شدید گرمی اور بارشیں نہ ہونے کے باعث "ٹوبوں” میں موجود تالابوں وغیرہ میں پانی خشک ہوگیا جس کے باعث جانوروں کو پانی نہ ملنے سے جانوروں کے ہلاک ہونے کا سلسلہ شروع ہوگیا اور سینکڑوں جانور ہلاک ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے غذائی قلت بھی پیدا ہوچکی ہے.
اب کیفیت یہ ہے کہ مسلسل خشک سالی کے باعث جانور تو جانور انسان بھی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور انتہائی مجبوری کے عالم میں وہاں سے نقل مکانی کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہورہا ہے.

ایسے میں ہمشیہ کی طرح سے پاکستان کے رفاہی اور مددگار میدان میں آچکے ہیں اور پانی کے ٹینکرز اور خوراک کے ساتھ اللہ اکبر تحریک کے رضاکار ابتدائی امداد لے کر پہنچ چکے ہیِں گو کہ یہ بہت زبردست ہے لیکن یہ مدد فی الحال ناکافی ہے لہذا پوری قوم کو اس مشکل وقت میں چولستان کے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور ان کی مدد کرنی چاہیے.
محمد عبداللہ

Comments are closed.