اوچ شریف کی چنری, ثقافتی ورثہ یا تاریخ کا ایک صفحہ؟

چنری کی روایت کمزور پڑنے لگی، کاریگروں کی مشکلات بڑھ گئیں،بے روزگاری کے ڈیرے

اوچ شریف (باغی ٹی وی نامہ نگارحبیب خان) چنری کا کاروبار حالیہ دنوں میں شدید بحران کا شکار ہے، جس کی بڑی وجہ ملک میں بڑھتی ہوئی غربت اور معاشی مسائل ہیں۔ چنری، جو مذہبی مزارات اور شادی بیاہ کی تقریبات میں اہمیت رکھتی تھی، اب کم طلب کی شکار ہو چکی ہے۔ یہ چنری خاص طور پر سرائیکی ثقافت کی ایک اہم علامت سمجھی جاتی ہے، خاص طور پر سابق ریاست بہاولپور میں، جہاں عباس نگر گاؤں میں رنگ برنگی چنریاں تیار کی جاتی ہیں۔

چنری نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی مقبولیت رکھتی تھی، مگر موجودہ اقتصادی حالات اور مہنگائی نے اس کاروبار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ چولستان کی خواتین صدیوں سے اس فن کو اپنائے ہوئے ہیں اور اسے نسل در نسل منتقل کرتی آرہی ہیں، تاہم اب ان کی محنت کا مناسب معاوضہ نہیں مل رہا، جس کی وجہ سے یہ روایتی فن ماند پڑتا جا رہا ہے۔

چنری بنانے کے عمل میں چھ سے آٹھ میٹر کپڑا درکار ہوتا ہے، اور اسے مکمل کرنے میں ایک سے دو دن لگتے ہیں۔ یہ کام نہایت محنت طلب اور وقت لینے والا ہے، لیکن اس کے باوجود خواتین کو ان کی محنت کا مناسب صلہ نہیں مل رہا۔ کاروباری افراد زیادہ منافع کماتے ہیں، جبکہ خواتین کی آمدنی انتہائی کم ہے۔

مقامی رہائشیوں اور کاریگر خواتین نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ ان کی محنت کو صحیح قدر دی جائے اور چنری کے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں، تاکہ یہ اہم ثقافتی ورثہ زندہ رہے اور نئی نسل بھی اس سے فائدہ اٹھا سکے۔ علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو چنری کا یہ روایتی فن اور کاروبار مکمل طور پر ختم ہو سکتا ہے۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مقامی خواتین کی محنت کی قدر کی جائے اور چنری کے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے ٹھوس حکمت عملی اپنائی جائے تاکہ اس فن کو زندہ رکھا جا سکے اور مقامی معاشرتی اور ثقافتی ورثے کو محفوظ کیا جا سکے۔

Leave a reply