چھوڑ کے تیرا دامن رحمت, آقا ہم سے بھول ہوئی ہے!!! — طاہر محمود

0
80

یہ وقت ہمیں کہاں لے آیا کہ بارود پھٹے تو تکبیر کا نعرہ لگے۔ مساجد و امام بارگاہوں کی صفیں لہو رنگ ہوں تو ہمارا عشق نکھرتا ۔ مندر اور کلیسا میں آگ جلے تو ہمارے ایمان کو جلا ملتی۔ اقلیتوں کی جان خطرے میں ڈالتے تو ہمارا اسلام خطرے سے نکلتا۔ ہم بھٹے میں جلتی لاشوں کی راکھ بنتی ہڈیوں پہ تقدیس رسالت کا قصر تعمیر کرتے۔ غیرمسلم بچی کے ننگے سر پہ چادر ڈالنے کی بجائے جبری نکاح کرنے میں ہمارا من تسکین پاتا۔ جلتے لاشے کے ساتھ تصاویر ہمارے عشق رسول کی سند ہوتیں۔

رسول اللہ ﷺ ! ہم شرمندہ ہیں۔

اہل کلیسا نے آپ کے نہیں, ہمارے کردار کے خاکے بنائے۔

ہمارے خطیبوں کی شعلہ نوائیوں اور جعلی محدثین کی فسانہ طرازیوں کے کارٹون بنے۔ ان میں عکس تمہاری بےداغ سیرت کا نہیں, ہمارے اعمال بد کا ہے۔ تمہیں تو دشمن نے صادق و امیں کہا, ہمِیں ننگ نکلے کہ کوئی اعتبار کو تیار نہیں۔

ہم تو بھول گئے کہ تو رحمة اللعالمین ہے۔ تو منبع جود و سخا ہے۔ تو مصدر عطا ہے۔ ہم نے مرنے مارنے اور گلے اتارنے سے کم پہ بات نہیں کی۔ سہیل بن عمرو تیرے نام سے رسول اللہ مٹاتا ہے۔ دریدہ دہنی کرتا ہے۔ جب وہ گرفتار ہوتا ہے تو عمر بن خطاب اس کے دانت توڑنے کی اجازت طلب کرتا ہے مگر یہ کیا ! ارشاد ہوتا ہے کہ میرے رب نے چہرے بگاڑنے والا بنا کر نہیں بھیجا۔ یہ وہ نبی تو نہیں جس سے ہمیں اپاہج خطیبوں نے روشناس کروایا۔

اہل مکہ خون کے پیاسے ہیں۔ غلہ کی کمی ہے۔ مگر ثمامہ بن اثال کو حکم ملتا ہے کہ کسی صورت غلہ نہ روکو۔ ہم تو بھوکے ننگے ہو کر بھی بائکاٹ سے کم پہ راضی نہیں۔ اب یہ کیا ! ابو سفیان آیا ہے۔ مکہ میں قحط ہے۔ مدینہ کیوں آیا بھلا, نبی سے دعا کروانے ۔ کہتا ہے, اے محمد! تیری قوم ہلاک ہو رہی ہے ۔ نبی دعا بھی کرتا ہے۔ تحفے اور اجناس سے بھی نوازتا ہے ۔
ہائے کیا کیا سبق بھلا بیٹھے ہم ۔

عیسائی آئے ہیں ۔ عبادت کا وقت ہے۔ وہ جگہ ڈھونڈنے لگتے تو مسجد نبوی کا صحن حاضر ملتا ہے۔ ہمارے زعماء نے مسجد کو مسلک بنا دیا۔ ارے وہ بدو کدھر ہے! جسے کل مارنے دوڑے تھے صحابہ ۔ کہ گستاخ ہے۔ آ گیا۔ اس کو اونٹ بھی عطا کرو۔ مال مویشی بھی دو۔

وارفتگی میں تیری شان بلند کرتا ہے اور تو اس بات پہ خوش, کہ جہنم سے بچ گیا۔ مگر تیرے فقیہ تو توبہ کا موقع دینے کے سزاوار بھی نہیں۔

کچرا پھینکنے والی بڑھیا کی روایت ہمارے خطباء کے نزدیک ضعیف سہی, مگر طائف کے پتھروں والی تو قوی روایت ہو گی۔ اے اللہ کے نبی, انہیں تباہ کر دیا جائے۔ نہیں ۔ یہ تو جانتے نہیں میں کون ہوں۔ احد میں پتھر لگتے۔ چہرہ لہولہان۔ زبان پہ دعا, اے اللہ یہ لوگ مجھے جانتے ہی نہیں۔ ہدایت دے انہیں۔

خامہ بشکستیم و لب بستیم از تعریف دوست

کیا کیا سناؤں, کیا کیا لکھوں۔ تیرے حلم پہ, تیرے کرم پہ, تیری عطا پہ, تیرے عفو پہ, تیری رحمت پہ, تیری شان کریمی پہ ۔ تیری محبت پہ, تیری بندہ نوازی پہ, تیرے تبسم کی عادت پہ, تیرے معاف کر دینے کی خصلت پہ, تیرے نور بصیرت پہ ۔

یا رسول اللہ! طائف والوں بھی تجھے نہ پہچانا۔ پتھر مارنے والے بھی تجھے نہ پہچانتے تھے۔ خاکے بنانے والے بھی تجھ سے ناواقف ہیں۔ مگر اے اللہ کے رسول, پہچانتے تو ہم بھی نہیں تجھے ۔ ہم بھی تیری شان رحیمی سے ناواقف ہیں۔ ہم تیرے نام پہ بےگناہوں کی جانیں لے سکتے ہیں ۔ تیرے دیے عفو و حلم کا سبق بھول چکے۔

مسلماں آں فقیرے کج کلاہے
رمید از سینہء او سوز و آہے
دلش نالد, چرا نالد, نداند
نگاہے یارسول اللہ, نگاہے

Leave a reply