پچھلے دنوں ہماری ایک کولیگ کی ترقی ہوئی تو انھیں مبارک باد دینے ان کے آفس گیا۔ مبارک باد دیتے ہوئے میں نے کہا کہ آپ بہت خوش قسمت ہیں کہ اتنی کم عمر میں اس عہدے پر پہنچ گئی ہیں۔ کہنے لگیں کہ میں نے بہت سخت وقت دیکھا ہے لیکن کبھی ہمت نہیں ہاری۔یہ اللہ کا خاص کرم ہے کہ مسلسل محنت اور ہمت نہ ہارنے سے ہی سب کچھ ملا ہے۔ میں بی ایس سی میں تھی کہ والدہ کا انتقال ہوگیا۔ والد صاحب نے دوسری شادی کر لی۔ چند ہفتے سب ٹھیک چلا مگر پھر سوتیلی ماں نے اپنا سوتیلا پن دکھانا شروع کیا۔ ہم صرف دو بہن بھائی تھے۔ بھائی مجھ سے بڑا تھا جسے والد صاحب نے پاکستان سے باہر پڑھنے کے لیے بھجوا دیا۔
سوتیلی ماں گھر کے سارے کام مجھ سے کرواتی تھی، والد صاحب کو یہ کہہ کر مطمئن کر دیتی تھی کہ اسے گھرداری سکھا رہی ہوں، ورنہ اگلے گھر جا کر یہی گلہ آئے گا کہ سوتیلی تھی اس لیے کچھ نہیں سکھایا۔ صبح جلدی اٹھ کر سب کے لیے ناشتہ بناتی تھی،اور گھر کی صفائی کر کے یونیورسٹی جاتی تھی۔ پھر یونیورسٹی سے واپس آتے ہی سب کے لیے کھانا بنانا ، برتن دھونا ، کپڑے دھونا وغیرہ سب کچھ کرتے رات کے دس گیارہ بج جاتے تھے۔ یہ روز کا معمول تھا۔
ہمارے والد صاحب کا اچھا بزنس تھا مگر سوتیلی ماں کے کہنے پر اب مجھے جیب خرچ بھی بہت کم ملتا تھا ، اتنا کم کے میں نے والد صاحب سے کہنا ہی چھوڑ دیا۔ محلے کےبچوں کو شام کو ٹیوشن پڑھانا شروع کی تاکہ اپنا جیب خرچ بنا سکوں جس سے گھر کے کام مزید رات کو دیر سے ختم ہوتے تھے۔ لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ یونیورسٹی کی سمسٹر کی فیس کی باری آئی تو سوتیلی ماں نے والد صاحب کو کہہ دیا کہ اب یہ خود اتنا کماتی ہے، اپنی فیس خود دے سکتی ہے۔ جس کے بعد مجھے مزید زیادہ محنت کرنی پڑی تاکہ اپنی فیس بھی خود جمع کر سکوں۔زیادہ پیسوں کے لیے ایک جگہ ہوم ٹیوشن پڑھانا شروع کی تو ان بچوں کے والد نے تنگ کرنا شروع کردیا مجبوراً چھوڑنا پڑی۔
بہنوں کو بھائی کا بڑا سہارا ہوتا ہے لیکن بھائی اپنی عیاشیوں میں مصروف تھا۔ میں جتنی بھی کوشش کرتی تھی مگر وہ میری بات اول تو سنتا ہی نہیں تھا، کبھی سن بھی لیتا تھا تو ایک ہی بات ہوتی تھی کہ تم عورتوں کی لڑائیاں کبھی ختم نہیں ہونگی۔
والد صاحب کا سہارا تھا تو وہ سوتیلی ماں نے چھین لیا تھا۔ میری ڈگری ہوتے ہی سوتیلی ماں نے اپنے کسی رشتہ دار کے ساتھ میرے رشتے کے لیے والد صاحب کے کان بھرنے شروع کیے۔ وہ نشئی سا تھا، واجبی سی تعلیم، محلے میں ہی کوئی دکان چلاتا تھا۔ عمر میں بھی مجھ سے کافی بڑا تھا۔ میں نے انکار کیا تو سوتیلی ماں نے کہنا شروع کیاکہ یونیورسٹی میں ہی اس کا کسی سے چکر ہوگا اس لیے نہیں مان رہی۔ اب تو میرے دل میں آتا تھا کہ اچھا تھا کہ کوئی ہوتا جس سے شادی کر کے اس جہنم سے نکل سکتی۔ بڑی مشکل سے ایم فل کی اجازت ملی۔ اپنے اخراجات تو میں پہلے ہی خود پورے کر رہی تھی لیکن ایم فل کی فیس زیادہ تھی۔ اس لیے والد صاحب سے بہرحال کچھ نہ کچھ سپورٹ ضروری تھی۔ ان کی اچھی مالی حیثیت کی وجہ سے مجھے کوئی سکالرشپ بھی نہیں مل سکتا ہے۔ مشکل سے ایم فل میں داخلے کی اجازت مل ہی گئی۔ ایم فل کے پورا ہونے کے قریب ایک کلاس فیلو نے پروپوز کیا، میں کسی سہارے کی تلاش میں تھی اس لیے اسے فوراً کہا کہ رشتہ بھیجو۔ اس رشتہ کے آنے پر سوتیلی ماں نے طوفان کھڑا کر دیا۔ وہ وہ الزام لگائے کہ خدا کی پناہ۔ لیکن میں ڈٹی رہی۔ کلاس میں وہ لڑکا کافی اچھا تھا ۔ شکل و صورت اور اخلاق بھی مناسب تھا۔ والد صاحب نے لڑکے کا گھر بار نہ دیکھا بس ایسے ہی ناراض ہو کر ہاں کر دی اور کہہ دیا کہ شادی کر کے جاؤ اور واپس کبھی اس گھر میں نہ آنا۔
شادی بغیر کسی جہیز کے سادگی سے ہوئی۔ جہیز نہ لانے کی وجہ سے لڑکے کی ماں اور بہنوں نے چند دنوں میں ہی طعنے دینے شروع کر دیے۔ میں ایک جہنم سے نکل سے کردوسرے میں آگئی تھی۔ شادی سے قبل اس نے کوئی وعدے تو نہیں کیے تھے مگر مجھے اتنا تھا کہ وہ مجھے پیار اور عزت دے گا۔ وہ بھی نہ ملے۔ کچھ دنوں بعد بات طعنوں سے جسمانی ازیت تک پہنچ گئی۔ میں نے جاب کی بات کی تو فوراً سے مان گئے۔ اچھی جاب مل جانے سے گھر میں کچھ دن سب اچھا رہا لیکن کچھ مہینوں بعد پھر سے وہی حالات۔ شاید انھیں اس بات نے شیر بنا دیا تھا کہ اس کا آگے پیچھے تو کوئی ہے نہیں ۔ باپ سوتیلی ماں کا ہو چکا تھا اور گھر آنے سے منع کر چکا تھا۔ بھائی نے باہر ہی کسی میم سے شادی کر لی تھی اور اسے بہن کا کچھ یاد ہی نہیں تھا۔ جن لڑکیوں کا میکہ نہ ہو وہ کٹی پتنگ کی مانند ہوتی ہیں۔ مجھے تنخواہ ملتے ہی شوہر ساری لے لیتا تھا۔ گھر میں ساس کی مرضی چلتی تھی۔
مجھے جاب سے واپس کر گھر کے سارے کام بھی کرنے ہوتے تھے۔ اس کے باوجود بھی طعنے اور مارکٹائی ہاتھ آتی تھی۔ ہر ماہ اتنا کما کے دیتی تھی پھر بھی جہیز نہ لانے والے طعنے ختم نہیں ہوتے تھے۔ باپ اور بھائی سے تحفظ نہ ملنے کے بعد مجھے شوہر سے یہ توقع تھی مگر اب وہ بھی ختم ہو چکی تھی۔ شوہر سے کئی بار بات کی، اسے سب بتایا مگر اسے صرف یہ تھا کہ میرا میکہ تو ہے نہیں تو کہاں جاؤں گی۔ جب سب کچھ برداشت سے باہر ہو گیا تو میں نے خلع کے لیے کیس دائر کر دیا۔ جب تک خلع کا کیس چلتا رہا، شوہر کے گھر ہی رہی، اسے کہتی رہی کہ آپ ابھی حالات کو بہتر کر لو تو میں خلع کا کیس واپس لے لوں مگر اسے تھا کہ میں خلع نہیں لونگی بلکہ صرف اسے بلیک میل کرنے کے لیے یہ سب کر رہی ہوں۔ مجبوراً خلع لے لی۔
خلع لے کر والد صاحب کے پاس پہنچی تو سوتیلی ماں نے گھر میں ہی داخل نہ ہونے دیا۔ والد صاحب کو کال کرتی رہی مگر وہ اٹینڈ نہیں کر رہے تھے۔ وہیں دروازے پر ان کا انتظار کیا مگر جب وہ آئے تو میری بات سنے بغیر ہی اندر چلے گئے اور دروازہ بند کر لیا۔ بھائی سے بھی بات کی انھیں سب بتایا مگر انکا کہنا تھا کہ اپنے مسئلے خود حل کرو۔
وہاں سے ایک گرلز ہاسٹل میں آگئی ۔ جاب کی وجہ سے پیسے کا مسئلہ نہیں تھا اس لیے ایک دو سال میں ہاسٹل میں ہی رہی۔ مرد ذات سے نفرت سی ہو گئی تھی۔
میرے ایک کولیگ کو کسی طرح میرے حالات کا پتہ چلا جس کی پہلی بیوی فوت ہو گئی تھی، اس کے دو چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ اس نے ایک بزرگ کی مدد سے مجھ سے رشتے کی بات کی۔ اس کی کافی کوشش کے بعد میں نکاح پر راضی ہو گئی۔ اب مجھے قدرت نے وہیں لا کھڑا کیا تھا جہاں کچھ عرصہ قبل میں اور میری سوتیلی ماں تھی۔ دونوں بچے سہمے ہوئے تھے۔ لڑکا بڑا تھا اور لڑکی چھوٹی۔
میں نے انھیں حقیقی ماں جیسا پیار دینے کا سوچا۔میرے جو بچے کبھی کبھی آپ کے بچوں کے ساتھ یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں کھیلتے ہیں وہ میرے شوہر کی پہلی بیوی سے ہیں۔ بچوں کو ایسا پیار دیا ہے کہ شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ میرے سگے بچے ہیں یا سوتیلے۔ میرا شوہر نہیں چاہتا کہ ابھی میری اولاد ہو، شاید اسے خوف ہے کہ میری اپنی اولاد ہو گئی تو میں ان بچوں کو پہلے جیسا پیار نہیں دونگی ۔ اس لیے میں نے اس پر کبھی زور نہیں دیا۔ والد صاحب بوڑھے ہونے کے بعد کاروبار کے قابل نہیں رہے، بھائی ملک سے باہر ہے۔
میرے اس شوہر کی تنخواہ اچھی ہے اس لیے اس نے میری تنخواہ کے بارے کبھی نہیں پوچھا۔ اپنی تنخواہ میں سے ایک بڑا حصہ اپنے باپ اور سوتیلی ماں کے اخراجات کے لیے بھجوا دیتی ہوں۔ باپ پیسے تو لے لیتا ہے مگر ابھی بھی ناراض ہے، بات نہیں کرتا مجھ سے نہ ملتا ہے ورنہ اس کی مزید خدمت بھی کرتی۔
شوہر سے پیار ملا ہے۔ ان دو بچوں کی صورت اللہ نے اولاد بھی دے دی ہے۔ اب یہ ترقی بھی مل گئی ہے، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے۔ اتنے مشکل حالات کے باوجود میں نے کبھی بھی خودکشی کا نہیں سوچا۔ میں نے کبھی نہیں سوچا کہ میرے ساتھ جو بھی ظلم ہوئے ان کا بدلہ میں کسی سے بھی لوں۔ آج اللہ کا شکر ہے کہ میری زندگی میں سکون ہے۔
میں نے نم آنکھوں کے ساتھ رخصت ہونے سے پہلے ان سے اجازت چاہی کہ ان کی سٹوری اپنی وال پر لکھ لوں۔ انھوں نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اجازت دیتے ہوئے کہا کہ ضرور لکھیں تاکہ نوجوان نسل کو معلوم ہو سکے کہ کسی بھی کامیاب شخص کو اس سیٹ تک پہنچنے میں کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ شاید اس سے کسی کو اپنی پریشانیاں چھوٹی لگنے لگیں۔ اس لیے اس میں شناخت چھپانے کے لیے تھوڑا سی تبدیلیاں کی ہیں لیکن مرکزی مضمون وہی رہنے دیا ہے۔ انھیں دکھانے کے بعد ان کی اجازت سے ہی یہ سٹوری پوسٹ کی جار ہی ہے۔