سگریٹ پر ٹیکس: غریب کی صحت کا تحفظ یا معاشی بوجھ؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
31 مئی کو تمباکو نوشی کی روک تھام کا عالمی دن منایا جاتا ہے جو دنیا بھر میں تمباکو کے مضر اثرات سے آگاہی دینے اور اسکے استعمال کو کم کرنے کا ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے۔ اس سال کرومیٹک ٹرسٹ اور باغی ٹی وی کی طرف سے منتخب کردہ عنوان "سگریٹ پر ٹیکس لگے گا تو غریب کی پہنچ سے دور ہو گا” ایک ایسی بحث کو جنم دیتا ہے جو صحت عامہ، معاشی انصاف اور سماجی ذمہ داری کے درمیان توازن قائم کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ موضوع پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے تناظر میں خاص طور پر اہم ہے جہاں غربت، صحت کی ناکافی سہولیات اور تمباکو کی صنعت کا اثر و رسوخ ایک پیچیدہ صورتحال پیدا کرتے ہیں۔ آئے اس اہم موضوع کا گہرائی سے جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں،
تمباکو نوشی صحت کا ایک عالمی مسئلہ ہے ، جس سے ہر سال لاکھوں افراد کی زندگیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت WHOکے مطابق تمباکو سے منسلک بیماریوں کی وجہ سے ہر سال تقریباً 8 ملین افراد ہلاک ہوجاتے ہیں، جن میں سے 1.2 ملین غیر فعال تمباکو نوشی (second-hand smoking) کے شکار ہوتے ہیں پاکستان میں یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، جہاں ہر سال تقریباً 100,000 سے زائد افراد تمباکو سے متعلق بیماریوں جیسے پھیپھڑوں کے کینسر، دل کے امراض، سانس کی بیماریوں اور منہ کے کینسر کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں تمباکو کی کھپت کی شرح بھی خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ملک کی تقریباً 32 فیصد بالغ مرد اور 8 فیصد بالغ خواتین سگریٹ نوشی کرتی ہیں جبکہ پان، چھالیہ، گٹکہ اور نسوار جیسے دیگر تمباکو مصنوعات کے استعمال کو شامل کیا جائے تو یہ شرح 54 فیصد تک جا پہنچتی ہے۔ خاص طور پر غریب طبقہ جو صحت کی سہولیات اور آگاہی سے محروم ہوتا ہے، اس لت کا زیادہ شکار ہے۔ سگریٹ کی کم قیمت اسے غریب طبقے کے لیے آسانی سے قابل رسائی بناتی ہے، جس سے ان کی صحت اور معاشی حالات دونوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
سگریٹ پر ٹیکس بڑھانا تمباکو کے استعمال کو کم کرنے کی ایک ثابت شدہ حکمت عملی ہے۔ WHO کے مطابق سگریٹ کی قیمت میں 10 فیصد اضافے سے ترقی پذیر ممالک میں اس کے استعمال میں 4 سے 5 فیصد کمی ہوتی ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ کمی 3 سے 4 فیصد ہوتی ہے۔ اس کی وجہ معاشی اصول ہے کہ جب کسی چیز کی قیمت بڑھتی ہے تو اس کی مانگ کم ہوتی ہے، خاص طور پر کم آمدنی والے طبقے میں جو اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے پہلے ہی جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں سگریٹ کی قیمت عالمی معیار کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ جہاں سری لنکا میں ایک سگریٹ کا پیکٹ تقریباً 9 ڈالر کا ہے، وہیں پاکستان میں یہ ایک ڈالر سے بھی کم میں دستیاب ہے۔ اس کی بنیادی وجہ کم ایکسائز ٹیکس اور غیر قانونی سگریٹ کی اسمگلنگ ہے۔ اگر پاکستان سگریٹ پر بھاری ٹیکس عائد کرے تو نہ صرف تمباکو کا استعمال کم ہوگا بلکہ حکومت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا،جو صحت عامہ کے منصوبوں اور غریب طبقے کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر مالی سال 2019-20 میں پاکستان نے سگریٹ پر ٹیکس بڑھایا تھا، جس کے نتیجے میں 147 ارب روپے کی آمدنی حاصل ہوئی تھی جو کہ پچھلے سال کے 114 ارب روپے سے نمایاں اضافہ تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیکس بڑھانا نہ صرف تمباکو کے استعمال کو کم کرتا ہے بلکہ معاشی فوائد بھی دیتا ہے۔ تاہم موجودہ ٹیکس نظام میں خامیاں ہیں، جیسے کہ غیر قانونی سگریٹ کی فروخت اور تمباکو کمپنیوں کی جانب سے ٹیکس چوری جو اس پالیسی کی افادیت کو کم کرتی ہیں۔
سگریٹ پر ٹیکس بڑھانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ غریب طبقے کو تمباکو کی لت سے بچا سکتا ہے۔ غریب خاندان اپنی محدود آمدنی کا ایک بڑا حصہ سگریٹ پر خرچ کرتے ہیں، جو ان کے بچوں کی تعلیم، خوراک اور صحت جیسی بنیادی ضروریات کو متاثر کرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں غریب گھرانوں کے افراد اپنی آمدنی کا 10 سے 15 فیصد تمباکو پر خرچ کرتے ہیں۔ اگر سگریٹ مہنگا ہو جائے تو یہ پیسہ ان کی زندگی کی بہتری کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ مزید برآں تمباکو سے متعلق بیماریوں کا علاج صحت کے نظام پر بھاری بوجھ ڈالتا ہے۔ پاکستان میں ہر سال تمباکو سے متعلق بیماریوں کے علاج پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، جو کہ غریب طبقے کے لیے اکثر ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ سگریٹ پر ٹیکس بڑھانے سے نہ صرف ان بیماریوں کی شرح کم ہو گی بلکہ صحت کے نظام پر بوجھ بھی کم ہو گا، جس سے غریب طبقے کو بہتر صحت کی سہولیات میسر ہو سکیں گی۔ تاہم اس پالیسی کے کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ سگریٹ کے عادی افرادخاص طور پر غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے قیمتوں میں اضافے کے باوجود اپنی لت کو برقرار رکھنے کے لیے دیگر ضروریات پر سمجھوتہ کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ خوراک یا تعلیم پر خرچ کم کر کے سگریٹ خریدنے کی کوشش کر سکتے ہیں، جس سے ان کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ اس کے علاوہ غیر قانونی سگریٹ کی اسمگلنگ اور سستے متبادلات کی دستیابی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان میں غیر قانونی سگریٹ کی مارکیٹ کا حجم تقریباً 40 فیصد ہے جو کہ ٹیکس بڑھانے کی پالیسی کی افادیت کو کم کرتی ہے۔
تمباکو انڈسٹری کا پروپیگنڈا ایک اہم نکتہ ہے۔ تمباکو کمپنیاں جیسے کہ پاکستان ٹوبیکو کمپنی اور فلپ مورس مارکیٹ کے 98 فیصد حصے پر قابض ہیں اور "غریب کے لیے سستی سگریٹ” کا بیانیہ پھیلا کر اپنی فروخت کو برقرار رکھتی ہیں۔ یہ کمپنیاں ہر سال اربوں روپے کا منافع کماتی ہیں اور اشتہارات کے ذریعے نئی منڈیاں بناتی ہیں، خاص طور پر نوجوانوں کو نشانہ بناتے ہوئے۔ یہ بیانیہ کہ سگریٹ پر ٹیکس بڑھانا غریب طبقے پر ظلم ہے، دراصل تمباکو انڈسٹری کی طرف سے ایک فریب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سستی سگریٹ غریب طبقے کو بیماری اور معاشی تباہی کی طرف دھکیلتی ہے۔ تمباکو کمپنیاں نہ صرف ٹیکس چوری کرتی ہیں بلکہ غیر قانونی سگریٹ کی فروخت کو بھی فروغ دیتی ہیں، جس سے حکومتی پالیسیوں کی افادیت کم ہوتی ہے۔ سگریٹ پر ٹیکس بڑھانا ایک مشکل لیکن ضروری اقدام ہے۔ تاہم اس پالیسی کو کامیاب بنانے کے لیے کچھ اقدامات ناگزیر ہیں۔ سب سے پہلے سگریٹ پر یکساں اور بھاری ایکسائز ٹیکس لگایا جائے جو تمام برانڈز پر یکساں طور پر نافذ ہو تاکہ غیر قانونی سگریٹ کی فروخت کو روکا جا سکے۔ غیر قانونی سگریٹ کی اسمگلنگ اور فروخت کو روکنے کے لیے سخت قوانین اور ان کا نفاذ ضروری ہے، جس کے لیے سرحدی نگرانی اور مارکیٹ چیکنگ کے نظام کو مضبوط کیا جائے۔ تمباکو کے مضر اثرات کے بارے میں عوامی آگاہی بڑھانے کے لیے میڈیا، سکولوں اور کمیونٹی سینٹرز کے ذریعے مہمات چلائی جائیں اور خاص طور پر نوجوانوں اور غریب طبقے کو ہدف بنایا جائے۔ سگریٹ کے عادی افراد کے لیے مفت یا کم لاگت کے بحالی پروگرامز متعارف کرائے جائیں، جو غریب طبقے کے لیے خاص طور پر مفید ہو سکتے ہیں، کیونکہ وہ علاج کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ سگریٹ پر ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک بڑا حصہ صحت عامہ کے منصوبوں، غریب طبقے کے لیے تعلیم اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر خرچ کیا جائے۔ عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی پر مکمل پابندی لگائی جائے اور حقہ کیفوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ اس کے علاوہ سگریٹ کے اشتہارات پر مکمل پابندی اور پیکٹس پر واضح انتباہی پیغامات کو مزید نمایاں کیا جائے۔
31 مئی کا عالمی دن ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ تمباکو نوشی نہ صرف ایک صحت کا سنگین مسئلہ ہے بلکہ ایک سماجی اور معاشی چیلنج بھی ہے۔ سگریٹ پر ٹیکس بڑھانا اس بحران سے نمٹنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے جو خاص طور پر غریب طبقے کو تمباکو کی لت سے بچا سکتا ہے۔ اگرچہ اس پالیسی کے کچھ وقتی چیلنجز ہیں، جیسے کہ عادی افراد پر معاشی دباؤ اور غیر قانونی سگریٹ کی فروخت لیکن جامع منصوبہ بندی اور سخت نفاذ سے ان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ حکومت، سول سوسائٹی اور عوام کو مل کر اس سمت میں کام کرنا ہو گا کہ تمباکو کی صنعت کے فریب سے نکلا جائے اور ایک ایسی پالیسی اپنائی جائے جو غریب طبقے کی صحت اور معاشی استحکام کو ترجیح دے۔ سگریٹ کو غریب کی پہنچ سے دور کرنا ظلم نہیں بلکہ ان کی زندگیوں کو بچانے اور ان کے مستقبل کو روشن کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس سلسلے میں کرومیٹک ٹرسٹ اور باغی ٹی وی کی کوششیں قابل تحسین ہیں جو ہر سال تمباکو نوشی کی روک تھام کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ یہ دونوں ادارے نہ صرف تحریری مقابلوں کے ذریعے سگریٹ نوشی اور تمباکو سے بنی اشیاء کے کنٹرول کے لیے شعور اجاگر کرتے ہیں بلکہ کرومیٹک ٹرسٹ مختلف فورمز پر سیمینارز اور ورکشاپس کے ذریعے آگاہی پھیلانے کی انتھک کوشش کرتا ہے۔ یہ اقدامات نوجوان نسل کو اس ان دیکھے دشمن سے بچانے کی جدوجہد کا اہم حصہ ہیں۔ ان کی ان کوششوں کی بدولت معاشرے میں تمباکو کے مضر اثرات کے خلاف ایک مضبوط آواز بلند ہو رہی ہے اور وہ اس عظیم مقصد کے لیے خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ آئیے اس عالمی دن کے موقع پر عہد کریں کہ ہم ایک صحت مند، خوشحال اور تمباکو سے پاک پاکستان کی طرف قدم بڑھائیں۔