سگریٹ پر ٹیکس لگے گا تو غریب کی پہنچ سے دور ہوگا
تحریر: زینب نور، اوکاڑہ
سگریٹ ایک ایسا زہر ہے جو آہستہ آہستہ انسان کو موت کے منہ میں دھکیل رہا ہے، اور اس بات کا احساس متاثرہ شخص کو ذرا بھی نہیں ہوتا۔
ایک عام آدمی، جس کے گھر دو وقت کی روٹی نہیں بنتی، وہ ایک دن میں دو تین ڈبیاں سگریٹ کی پی لیتا ہے۔
محنت مزدوری کرنے والا عام طبقہ بھی اس لعنت سے باز نہیں آیا۔ سارا دن مزدوری کرکے شام کو سگریٹ پینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
روٹی چاہے مرچ کے ساتھ کھا لیں، مانگ تانگ کے کھا لیں، لیکن سگریٹ کے بغیر گزارہ کرنا مشکل ہے۔
یہ ایک انتہائی مضر عادت ہے جو نہ صرف پینے والے کو نقصان دیتی ہے بلکہ ارد گرد کے افراد کو بھی متاثر کرتی ہے۔
صحت پر اس کے انتہائی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اس میں موجود نکوٹین اور دیگر کیمیائی مادے پھیپھڑوں کے خلیات کو تباہ کر دیتے ہیں۔
دمہ کے مریضوں کو اس کے دھوئیں سے سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔
سگریٹ نوشی سے خون کی نالیاں تنگ ہو جاتی ہیں۔
بلڈ پریشر بڑھنے کی وجہ سے ہارٹ اٹیک اور فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اس میں موجود کیمیکلز خون کو گاڑھا کر دیتے ہیں۔
منہ کے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
مسوڑھوں اور دانتوں کے مسائل جنم لیتے ہیں، دانت گرنے لگتے ہیں اور منہ میں ہر وقت بدبو رہتی ہے۔
سگریٹ کا دھواں نہ صرف دوسروں کے لیے خطرناک ہے بلکہ خود کی صحت کو بھی تباہ کر دیتا ہے۔
اس سے بچاؤ کے لیے گھر سے شروع کریں۔ اپنے آپ کو، اپنے خاندان کو بچائیں۔
مناسب وقت پر علاج کروائیں۔ ابتدا میں مشکل ہوتی ہے، لیکن آہستہ آہستہ اس عادت سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔
اگر حکومتی سطح پر دیکھا جائے تو ٹیکس لگانے سے نوجوان طبقہ چوری اچکاری میں پڑ سکتا ہے۔
یہ ایک ایسا نشہ ہے جس کو پورا کرنے کے لیے مانگنا یا لوٹ مار عام ہو سکتا ہے۔
گداگری میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔
دیکھا جائے تو پڑھا لکھا طبقہ ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث ہے، اور جو انسان اس عادت میں ڈوبا ہوگا، اسے بروقت یہ نشہ نہ ملنے پر ڈکیت بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
میری رائے میں اس کی پیداوار کو بتدریج کم کرتے کرتے بالکل زیرو فیصد کر دینا چاہیے۔
"نہ رہے بانس، نہ بجے بانسری”
دوسری طرف، جتنا وقت پیداوار کی شرح میں کمی لانے میں لگے گا، اتنا ہی وقت ایسے مریضوں کو پکڑ کر ان کا علاج کروا کے مناسب روزگار پر لگایا جائے۔
آج کل کے نوجوان جس ذہنی پریشانی کی وجہ سے اس طرف آتے ہیں، اس جڑ کو سرے سے ختم کر دینا چاہیے۔
کچھ نوجوانوں نے فیشن کے طور پر بھی اس کو اپنایا ہوا ہے۔
نہر کنارے، پارکوں میں ٹولیاں بنا بنا کر یہ شغل فرمایا جا رہا ہے۔
انسانی جان اتنی ارزاں نہیں کہ اسے خود اپنے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔
حکومت مناسب روزگار مہیا کرے۔ نوجوان پڑھا لکھا طبقہ بھی اس لعنت سے محفوظ نہیں۔
ہمیں اپنے ملک کے نوجوانوں کو بچانا ہے۔
"نوجوان ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں”