سول نافرمانی اور لوٹ مارکاخدشہ
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
انٹرنیشنل نیوزایجنسی رائٹرزکی رپورٹ کے مطابق جنوبی امریکی ملک ارجنٹائن میں بدترین معاشی بحران اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ستائے لوگوں نے دکانوں میں لوٹ مار شروع کر دی ہے ،مقامی میڈیا کے مطابق حالیہ دنوں میں پورے ملک میں لوٹ مار کے کئی واقعات رپورٹ ہوئے، لوٹ مار کے خوف سے کچھ دکانداروں نے دکانیں بند کردیں اور کچھ دکانداروں نے حفاظت کے لیے ہتھیار رکھ لیے ہیں،واضح رہے کہ ارجنٹائن میں آئی ایم ایف کے معاشی پروگرام سے کرنسی کی قدر میں تیزی سے کمی نے اشیائے ضروریہ کو مزید مہنگا کر دیا ہے جس کے باعث ارجنٹائن کے عوام ان دنوں معاشی بحران اور سو فیصد سے زیادہ مہنگائی اوربے روزگاری کاشکارہیں اوران کی قوت خرید ختم ہوگئی ہے ،جس سے ارجنٹائن میں لوٹ مار،چھیناجھپٹی عروج پر پہنچ گئی ،جسے وہاں کی پولیس کنٹرول کرنے میں ناکام ہوچکی ہے،
پاکستان میں بھی آئی ایم ایف نے قرض پروگرام کے ساتھ ہی مہنگائی سے متعلق خطرے کی گھنٹی بھی بجا دی ہے۔آئی ایم ایف نے پاکستانی معیشت سے متعلق فورکاسٹ رپورٹ جاری کر دی، رپورٹ میں آئی ایم ایف نے پیشگوئی کی ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 25.9 فیصد رہنے کا امکان ہے۔مالی سال 2023 میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح 29.6 فی صد رہی، مالی سال 2022 میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح 12.1 فی صد تھی، آئندہ مالی سال میں پاکستان کی معیشت پست شرح نمو کا شکار رہے گی۔فورکاسٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 2023میں 8-5فیصدرہی ہے جبکہ گذشتہ سال 2022میں بے روزگاری کی شرح 6.2 فی صد تھی۔
اس وقت پاکستان میں اشیائے ضروریہ عوام کی پہنچ سے بہت دورجاچکی ہیں،آٹا،گھی ،چینی ،دالیں اور پولٹری مصنوعات کی قیمتوں میں بدستور ہوشربااضافہ،سبزیاں اور پھل بھی عوام کی قوت خرید سے باہرہوگئے ہیں،عوام کا کہنا ہے کہ مہنگائی کنٹرول کرنے میں نگران حکومت مکمل ناکام ہوچکی ہے،مارکیٹ ریٹ کے برعکس آفیسران ائرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر فرضی ریٹ لسٹیں بناکراپنے ایجنٹوں کے ذریعے 10سے20روپے فی کاپی کے حساب سے مارکیٹ میں دکانداروں کوفروخت کرتے ہیں ،مارکیٹ کمیٹی کی جاری کردہ ریٹ لسٹ اورمارکیٹ میں اشیاء کے نرخوں میں زمین وآسمان کافرق ہوتا ہے ۔زندگی بچانے والی ادویات اتنامہنگی ہوگئی ہیں کہ غریب عوام تڑپ تڑپ کرموت کے منہ میں جارہے ہیں،اشرافیہ ہے کہ ان کے جسم پرجوں تک نہیں رینگتی،وہ عوام کی تکالیف سے بے نیاز ہوکرادویات اور دوسری ضروریات زندگی کی قیمتوں میں من چاہااضافہ کردیتے ہیں اورجب جی کرے تمام اہم چیزیں بلیک میں فروخت کرنے کیلئے مارکیٹ سے غائب کرکے ذخیرہ اندوزی کرلیتے ہیں۔
آئی ایم ایف کی شرائظ پورے کرنے کیلئے حکومت پاکستان نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھاری اضافہ کردیاجس سے عوام کی کمرٹوٹ گئی، پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے سے گڈز ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ سے اشیاء کی قیمتوں میں بڑااضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔دوسری طرف نگران حکومت نے آئی ایم ایف کوراضی کرنے کیلئے عوام پر بجلی کاایٹم بم گرادیا ہے ،بجلی کے بل اتنا زیادہ بڑھائے گئے کہ کئی شہریوں نے بھاری بل دیکھ کرخودکشیاں کرلیں،اس وقت ناجائز بجلی بلوں کے خلاف پورے پاکستان میں عوام سراپا احتجاج ہیں لیکن غیرمنتخب ارباب اختیار و نگران حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی ،اس سے قطع نظرنگران حکومت عوام کو بجلی کے نرخوں میں ریلیف دیتی ہے یا نہیں
سوشل میڈیا پرمختلف پوسٹیں اوراعداد وشماردیکھنے کومل رہے ہیں ایک پوسٹ کے مطابق واپڈا کے 48 ہزار آفیسران 1 لاکھ 5 ہزار ملازمین سالانہ 39 کروڑ 10 لاکھ فری یونٹ اور 5 ارب 25 کروڑ روپے کی سالانہ مفت بجلی استعمال کرتے ہیں،جس کاخمیازہ عوام کوبھاری بلوں کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے ۔پاکستان کی تمام کچہریوں میں وکلاء چیمبرز،عدالتیں ،ججز اورکچہری کاپوراسسٹم مفت کی بجلی پر چلتا ہے ہاں کچہری میں کچھ ایسے وکلاء بھی موجود ہیں جنہوں نے اپنے چیمبرکیلئے بجلی کے میٹرلگوائے ہوئے ہیں جوماہانہ بل بھی جمع کراتے جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابرہے ،
بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام اور نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ کی جانب سے 2021 میں شائع ہونے والی ایک مشترکہ رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ کیسے پاکستان کے امرا، جاگیردار، سیاسی قائدین اور فوج کو ملنے والے معاشی مراعات پاکستان کی معیشت میں 17 ارب ڈالر سے زیادہ کا اضافی خرچے کا باعث بنتے ہیں۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس(پائیڈ) اور اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے مختلف اداروں کے افسران کو اکثر ماہانہ تنخواہ کے ساتھ کئی مراعات ملتی ہیں جن میں مفت بجلی بھی شامل ہیں
رپورٹ کے مطابق عدلیہ کے ایک ہائی کورٹ کے جج کو اپنی ملازمت کے دوران مفت گھر ملتا ہے، جس کا کرایہ حکومت دیتی ہے جبکہ بجلی کا بِل اور سرکاری گاڑی بھی حکومتی کھاتے میں آتے ہیں۔پائیڈ کی رپورٹ کے مطابق اگر جج اپنے گھر میں رہتے ہیں تو ان کے گھر کا اضافی خرچہ، جو دستاویزات میں تقریبا 65 ہزار روپے ماہانہ رقم بتائی جاتی ہے، مختص کردی جاتی ہے۔اور اس کے علاوہ دیگر اخراجات بھی اسی کھاتے میں اضافی کے نام سے شامل کر دیے جاتے ہیں جو حکومت بھرتی ہے
پائیڈ کی رپورٹ کے مطابق اسی طرح بجلی کے اداروں میں کام کرنے والے اعلی افسران کو مفت بجلی دی جاتی ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ مفت ٹیلیفون، مفت پٹرول اور مفت گھر بھی دیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ مارچ کے مہینے میں پبلک اکاوئنٹس کمیٹی کی ایک اجلاس میں پاور ڈویژن کو 16 سے 22 گریڈ کے سرکاری افسران کو مفت بجلی کی سہولت ختم کرنے کی تاکید کرتے ہوئے کمیٹی چیئرمین نور عالم خان نے کہا تھا کہ اس اقدام سے سالانہ نو ارب روپے کی بچت ہو گی تاہم اس تجویز پر عمل نہیں ہو سکا۔
اب سوشل میڈیا پرمسلسل سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ ایک سکول ٹیچراپنی سواری،بجلی کے بل کے ساتھ اپنے گھرکے تمام اخراجات ملنے والی اپنی تنخواہ سے کرت اہے تو پھر پاکستان کے بڑے اداروں کے افسران کو ملنے والی بجلی اور دیگرآسائشیں مفت کیوں؟
عوام مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ تمام گورنمنٹ ملازمین اور بشمول واپڈا ملازمین ،کچہریوں ،عدالتوں کودی جانے والی مفت بجلی بند کی جائے اور 500 یونٹ کاٹیرف 10 روپے یونٹ رکھا جائے اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کا فراڈ ختم کیا جائے ۔
اگر پاکستان کے مقتدر حلقوں نے عوام میں پائی جانے والی بے چینی،احتجاج اوران کی آہ وزاری پرتوجہ نہ دی تو پاکستان کی اشرافیہ اورایلیٹ کلاس اپنے گھروں میں سکون سے نہیں رہ پائیں گے، مقتدرحلقوں کو سری لنکا کے حالات کو بھی مدنظررکھنا چاہئے،جب کی وہاں عوام ظالم حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پرنکلی تو پوری دنیا نے دیکھا کہ وہاں کے حکمرانوں کے خلاف عوام کاغیض وغضب کیساتھا۔
ارجنٹائن نے بھی آئی ایم ایف قرض پروگرام پر عملدرآمد کرنے کیلئے بے جا ٹیکس لگائے جس سے مہنگا ئی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا اور عوام کی قوت خرید ختم ہوگئی تو پھر ارجنٹائن میں بدترین معاشی بحران اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ستائے لوگوں نے دکانوں میں لوٹ مار شروع کر دی ۔
آخرمیں ارباب اختیار سے عرض ہے کہ پاکستان کو سری لنکایا پھرارجنٹائن نہ بننے دیں ،عوام کے مطالبات جائز ہیں ان پر کان دھریں ایلیٹ کلاس یا اشرافیہ کی عوام کی سسکتی زندگی کی قیمت پر عیاشیاں بند کی جائیں ،مفت بجلی سمیت تمام اضافی مراعات واپس لی جائیں کیونکہ اس وقت پاکستان کسی بھی قسم کے ایڈونچریاکسی افراتفری کامتحمل نہیں ہوسکتا،اگراقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے طاقتور لوگوں نے عوام کی بے چینی کافوری ادراک نہ کیا توملک دشمن عناصر بھی تاک میں بیٹھے ہیں وہ ان حالات کا بھرپو رفائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے ،خدانخواستہ اگرعوام نے سول نافرمانی شروع کردی اور لوٹ مارافراتفری پیدا ہوگئی تو عوام کے غصے سے اشرافیہ نہیں بچ پائے گی،اب بھی وقت ہے کہ عوام کی آواز سنیں اوران کے مسائل حل کریں ،کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر دیرہوجائے۔








