خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی جانب سے صوبائی اُمور چلانے سے قبل ایک سزا یافتہ قیدی سے مشاورت کے مطالبے نے سنگین آئینی سوالات کو جنم دے دیا ہے۔ ماہرینِ قانون کے مطابق وزیراعلیٰ کا یہ اقدام نہ صرف آئینِ پاکستان کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ اُن کے عہدے کے حلف سے بھی متصادم ہے۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے آئین کے آرٹیکل 130(5) اور تیسرے شیڈول کے تحت یہ حلف اٹھایا کہ وہ ’’دیانتداری، وفاداری اور آئین و قانون کے مطابق‘‘ صوبے کے اُمور چلائیں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک سزا یافتہ اور نااہل شخص سے صوبائی پالیسیوں یا فیصلوں کے حوالے سے مشاورت کرنا، اس حلف کی براہِ راست خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
آئین کے مطابق وزیراعلیٰ کو صوبے کے انتظامی معاملات میں مکمل خودمختاری حاصل ہے۔ کسی بھی بیرونی یا نااہل فرد سے رہنمائی لینا یا اُس کے احکامات پر عمل درآمد کرنا صوبائی خودمختاری اور آئینی دائرہ کار کو نقصان پہنچاتا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کا یہ طرزِ عمل آئینی اداروں کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے متعدد فیصلوں میں یہ بات واضح کی جاچکی ہے کہ آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 کے تحت نااہل قرار دیا گیا شخص کسی سیاسی جماعت کا سربراہ یا پارلیمانی اُمور کا کنٹرولر نہیں بن سکتا۔ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق، ایسی نااہلی سیاسی قیادت کے تمام عہدوں پر لاگو ہوتی ہے۔عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے میں واضح کیا گیا کہ عمران خان کی 2022 کی نااہلی اُنہیں 2027 تک کسی بھی سیاسی یا تنظیمی عہدے کے اہل نہیں بناتی۔ نہ آئینِ پاکستان اور نہ ہی کوئی صوبائی قانون وزیراعلیٰ کو پابند کرتا ہے کہ وہ کسی سیاسی رہنما، بالخصوص ایک سزا یافتہ اور نااہل شخص، سے مشورہ کرے۔ ایسا مطالبہ آئینی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے غلط ہے۔
خیبر پختونخوا پاکستان کا ایک نہایت اہم اور حساس صوبہ ہے۔ اس کی انتظامیہ کو ذاتی وفاداریوں یا سیاسی احکامات کی زنجیروں میں جکڑنا نہ صرف قانون و حکمرانی کی توہین ہے بلکہ ریاستی اداروں کے اختیار کو بھی چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کو اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے فیصلے کرنے چاہئیں۔ کسی سزا یافتہ یا نااہل شخص کے احکامات پر عمل درآمد کرنا ’’ریاستی اداروں کی بلیک میلنگ‘‘ کے مترادف ہے اور یہ طرزِ عمل آئین، قانون اور جمہوری روایات تینوں کے خلاف ہے۔
سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر، آئینِ پاکستان ہر وزیراعلیٰ کو پابند کرتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں مکمل خودمختاری اور قانونی تقاضوں کے تحت ادا کرے۔ کسی بھی نااہل یا سزا یافتہ شخص سے رہنمائی لینا نہ صرف غیر آئینی بلکہ جمہوری اقدار کی نفی کے مترادف ہے۔






