دنیا بھر میں اچھے کام اور پراجیکٹس دکھانے کا طریقہ ہوتا ہے کہ منتخب عوامی نمائندے وزیراعلیٰ کی تصاویر کے ساتھ کسی آرٹسٹ کی بیک گراؤنڈ آواز کے ساتھ ڈاکومنٹری چلائیں۔ ڈاکومنٹری ویڈیوز میں افسران کو دکھانا یا انکا نام لینا بھی غیر قانونی ہے۔ پولیس اور دیگر افسران کو چاہئے کہ اپنی فوٹو کو آفیشل پیجز اور ڈاکومنٹری میں زبردستی لانا بند کریں۔انتظامی افسران کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ وہ پالیسی میکرز نہیں ہیں انکا کام پالیسی کا نفاذ ہے۔ اس لیے پریس ریلیز میں سوائے وزیراعلیٰ کے کسی کی بھی پالیسی، ہدایات یا احکامات کے الفاظ لکھنا بھی غیرقانونی ہے۔سیلابی صورت حال میں اے سی، ڈی سی، ڈی پی او سمیت سرکاری افسران کی فنکاریوں اور ماڈلنگ کی لاتعداد ویڈیوز پر شدید عوامی ردعمل اور غصہ ہے۔ سب سے زیادہ لعن تعن ڈپٹی کمشنر مظفر گڑھ، آر پی او ملتان اور ڈی پی او چکوال کی "اوورایکٹنگ” پر کی جارہی ہے۔سرکاری افسران کی جعلی ویڈیوز اور ایکٹنگ کی وجہ سے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کا حقیقی اور بے مثال کام بھی متاثر ہوا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب جس طرح سیلاب سے متاثرہ اضلاع کے دورے کر رہی ہیں اور تمام محکموں کو ون یونٹ بنا کر ریلیف اینڈ ریسکیو آپریشن کی سپرویژن کر رہی ہیں ایسی ایکٹو قیادت کو سلام۔

موجودہ سیلابی صورت حال میں سب سے زیادہ امدادی کاروائیاں آرمی کی طرف سے کی گئیں جن کی میڈیکل کور، فوری طبی سہولیات فراہم کر رہی ہے، انجنئرنگ والے بلا تعطل ریلیف اینڈ ریسکیو کیلئے پل اور راستے تعمیر کررہے ہیں جبکہ ایوی ایشن والے کشتیوں اور ہیلی کاپٹرز کے زریعے دور دراز علاقوں سے افراد کو ریسکیو کر رہے ہیں اور خوراک و ضروری سامان کی فراہمی کو ممکن بنارہے ہیں۔ پولیس اور سول انتظامی افسران کی جعلی ویڈیوز اور ایکٹنگ سے وزیراعلیٰ پنجاب کا تاریخی سیلاب پیکج اور افواج پاکستان کی قربانیاں سوشل میڈیا سے اوجھل ہوکر رہ گئیں ہیں۔ عوام سیلاب سے مر رہے ہیں اور سرکاری افسران بے شرمی اور دھٹائی کی ساری حدیں پار کرکے سارا دن فوٹو شوٹ کرتے پھر رہے ہیں۔ سیلف پروجیکشن کیلئے پاگل افسران کی ہڈ حرامی کی قیمت، گالیاں تو حکومت کو ہی پڑتی ہیں۔سرکاری ملازمین کی ایکٹنگ اور سوشل میڈیا سیلف پروجیکشن پر شدید عوامی تنقید پر آئی جی پنجاب عثمان انور نے پہل کرتے ہوئے گذشتہ روز سوشل میڈیا کی سیلف پروجیکشن پر پابندی کا نوٹیفیکشن جاری کردیا۔ ایک طرف سوشل میڈیا ویڈیو پر چھوٹے ملازمین کو معطل اور نوکریوں سے برخاست کیا جارہا ہے تو دوسری طرف پی ایس پی افسران چلتے پھرتے ماڈلنگ کر رہے ہیں، معزز شہریوں کی پرائیویسی خراب کرکے انکی ویڈیوز بناکر بھی لائک اور ویوز بٹورے جارہے ہیں۔ آئی جی پنجاب کا نوٹیفیکیشن نہ صرف ادھورا ہے بلکہ ”وہی قاتل وہی منصف“ کے مصداق جن ٹک ٹاک سٹارز کے کرتوتوں سے پولیس ڈیپارٹمنٹ مذاق بن کر رہ گیا ان کو ہی مجاز اتھارٹی بنا دیا گیا۔ پولیس کا اصل کام چھوڑ کر سنگم اور چلپل پانڈے بنے پی ایس پی افسران کو ہی اختیار دے دیا کہ جو بھی ویڈیو بننی ہے تم سے اجازت لیکر بنے گی۔

بطور پولیس سربراہ آئی جی ادارے کا Face ہوتا ہے۔اس لیے صوبائی سربراہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ضرورت کے مطابق الیکٹرانک، پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا پر اپنی بات کہہ سکیں اور انکو کرنی بھی چاہئے ناکہ ہر کوئی اپنی دکان کھول لے۔ ڈپٹی کمشنرز، ڈی پی او، ایس پی اور اسسٹنٹ کمشنر لیول کے جونیئر افسران کو چاہئے کہ بوقت ضرورت پریس بریفنگ کریں نا کہ سرکاری گاڑی اور دفاتر کو ذاتی تشہیر کا زریعہ بنا لیں۔میری ڈی آئی جی آپریشن لاہور فیصل کامران سے کوئی ملاقات نہیں ہے لیکن انکے اس عمل کی تعریف ضرور کروں گا گہ وہ روزانہ کھلی کچہری کرتے ہیں لیکن کبھی بھی شکایت یا انصاف کے حصول کیلئے دفتر اور کھلی کچہری آنے والے معزز شہریوں کی طرف کیمرہ نہیں کرتے۔ جبکہ دیگر آر پی او، سی پی او، ڈی پی او سمیت اے ایس پی کی اکثریت دفاتر اور کھلی کچہریوں میں آنے والے معزز شہریوں کی ویڈیوز بنا کر انکی پرائیویسی خراب کررہے ہیں جو سراسر خلاف قانون اور قابل گرفت جرم ہے۔

شہری کی پرائیویسی خراب کرنے پر شہرت کے حصول کیلئے حواس باختہ ذہنی مریض افسران کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمات کا اندراج کرکے جیل بھیجا جائے۔سرکاری افسران کی طرف سے معزز شہریوں کی ویڈیو بنانے اور سوشل میڈیا پر وائرل کرنے جیسی گھٹیا حرکات پر انسانی حقوق کی تنظیمیں بارہا اسے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دے چکی ہیں۔ سرکاری افسران میں سوشل میڈیا پر ایکٹنگ کا مقابلہ ہے، ہر طرف ایکٹنگ ماڈلنگ اور کیمرے ہی کیمرے کوئی کارگردگی نہیں رہی۔ عوامی فلاح و بہبود کے کام ٹھپ ہوگئے ہیں اور ہر کوئی کیمرہ اٹھائے یہ بتانے اور جتلانے میں لگا ہے کہ اس نے سرکاری کام کرکے بہت بڑا کارنامہ کردیا ہے، خود کو لارڈ اور عوام کو حقیر بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔بیوروکریسی اور سرکاری افسران نے سوشل میڈیا کو جس طرح Misuse بلکہ Abuse کیا ہے اس کے سنگینی کو سامنے رکھتے ہوئے چیف سیکرٹری کی طرف سے صوبے بھر کے ملازمین کیلئے مجموعی واضح حکم نامہ جاری ہونا چاہئے کہ اگر تم نے ایکٹنگ کرنی ہے تو تمہارے لیے سرکاری ملازمت کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ سیلف پروجیکشن کی لعنت میں ہلکان ہونے والے ذہنی مریضوں کو ٹھیک کرنے کا واحد علاج عہدوں سے ہٹاکر کسی ری ہیبلیٹیشن سینٹر میں داخل کروانا ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ میڈم عالیہ نیلم اور چیف جسٹس آف پاکستان سے گزارش ہے کہ انصاف کا ترازو اس بات کا متقاضی ہے کہ لاقانونیت اور اختیارات سے تجاوز کے اس دھندے کو فوری بند کرنے کی احکامات صادر فرمائے جائیں۔اپنی شہرت کی بھوک مٹانے اور چند ویوز کیلئے معزز شہریوں کی پرائیویسی کو داؤ پر لگانے والے قطعی معافی کے حقدار نہیں۔

Shares: