سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی ے ہائر ایجوکیشن کمیشن اور چین کی ژیان جیاؤ ٹونگ یونیورسٹی کے تعاون سے ایک دو روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا جس کا موضوع "سی پیک توانائی کے انفراسٹرکچر اور سماجی و اقتصادی تبدیلیاں” تھا۔ یہ کانفرنس عالمی سطح پر مختلف ممالک کے ماہرین اور محققین کی شرکت سے منعقد ہوئی، جس میں چین، ترکی اور ملائیشیا سمیت متعدد ممالک کے معروف اسکالرز نے اپنی آن لائن پریزنٹیشنز پیش کیں۔

کانفرنس کے دوران سی پیک کے توانائی کے منصوبوں اور ان کے پاکستان کی معیشت، زرعی شعبہ، اور سماجی و اقتصادی ترقی پر اثرات پر گہری بحث کی گئی۔ کانفرنس میں پاکستان کے مختلف صوبوں کی یونیورسٹیوں، تحقیقاتی اداروں اور زرعی تنظیموں کے محققین نے بھی حصہ لیا اور مختلف تکنیکی سیشنز میں اپنے خیالات کا تبادلہ کیا۔سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی کے وائس چانسلر، ڈاکٹر فتح ماری نے سی پیک کے تحت پاکستان کی برآمدات کو یورپ تک بڑھانے کے امکانات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ چین کے ترقیاتی ماڈلز کو اپنانا اور زرعی باقیات سے توانائی کے منصوبے شروع کرنا پاکستان کے اقتصادی مستقبل کے لیے اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے ساحلی علاقوں کی بہتر استعمال کے لیے بھی تجاویز پیش کیں تاکہ ان علاقوں سے توانائی پیدا کی جا سکے۔ڈاکٹر فتح ماری نے سی پیک فریم ورک کے تحت ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے اور غربت و خوراک کی کمی کو دور کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک صرف اقتصادی ترقی کا ذریعہ نہیں ہے، بلکہ اس کے ذریعے پاکستان اور چین کے درمیان سماجی اور ثقافتی روابط میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

کانفرنس میں ژیان جیاؤ ٹونگ یونیورسٹی کے پروفیسر کوان باو جیانگ نے بھی شرکت کی اور سی پیک کو بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا ایک اہم جزو قرار دیا۔ پروفیسر جیانگ نے کہا کہ چین نے اس منصوبے کے ذریعے 60 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان میں کی ہے، جو دونوں ممالک کے اقتصادی تعلقات کو مستحکم بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔انہوں نے سی پیک کے تحت ہونے والے ترقیاتی منصوبوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور ان منصوبوں کو پاکستان کی ترقی کے لیے ایک سنگ میل قرار دیا۔ پروفیسر کوان باو جیانگ نے کہا کہ سی پیک نہ صرف پاکستان کی معیشت کو فائدہ پہنچا رہا ہے بلکہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان باہمی تعلقات کو بھی مستحکم کر رہا ہے۔

کانفرنس کے اختتام پر، ایس اے یو کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح ماری نے سی پیک فریم ورک کے تحت زرعی ترقی اور سماجی بہبود کے لیے مختلف منصوبوں پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے ذریعے زرعی شعبے میں جدید ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری لانے سے پاکستان کی زرعی پیداوار میں اضافہ ممکن ہے، جس سے نہ صرف ملک کی معیشت کو تقویت ملے گی بلکہ غربت کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔

کانفرنس میں شریک ماہرین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ سی پیک کے تحت توانائی کے منصوبے اور زرعی ترقی کے لیے کی جانے والی سرمایہ کاری پاکستان کے معاشی مستقبل کے لیے نہایت اہم ہے۔ اس کے علاوہ، کانفرنس کے دوران ہونے والی تحقیقاتی پیشکشوں اور تجزیوں نے سی پیک کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اس کے کامیاب نفاذ کے لیے مختلف حکمت عملیوں پر غور کیا۔

اس دو روزہ کانفرنس کا اختتام ایک کھلے مباحثے اور تجاویز کے ساتھ ہوا، جس میں محققین، اسکالرز اور ماہرین نے سی پیک کے فوائد کو بڑھانے اور اس کے مثبت اثرات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے عملی اقدامات پر بات کی۔ کانفرنس نے یہ واضح کیا کہ سی پیک نہ صرف توانائی کے شعبے میں اہم تبدیلیاں لا رہا ہے بلکہ زرعی اور سماجی ترقی کے لیے بھی ایک اہم راہ ہموار کر رہا ہے۔

بشریٰ بی بی کی سیاسی فیصلوں میں مداخلت، پی ٹی آئی کی سینئر قیادت میں تشویش

کراچی میں ڈکیتی مزاحمت پر رواں سال کا پہلا قتل

Shares: