موسمیاتی تبدیلی ، کوپ 29 کانفرنس،پاکستان کے لیے امید کی کرن؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
میں اپنی ای میلز چیک کر رہا تھا تو اس دوران ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے ایک ای میل آئی، جس میں بتایا گیا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل ماضی میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے اجلاسوں میں بھی شامل رہی ہے۔ انہوں نے وہاں مختلف پروگرامز منعقد کیے اور حکومتوں سے بات چیت کرکے لوگوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ اس سال بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دوسری تنظیمیں یہی کام کر رہی ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں جب فیصلے کیے جائیں، تو لوگوں کے حقوق کو بھی اہمیت دی جائے۔
اس میل کے ذریعے مجھے اقوامِ متحدہ کے تحت موسمیاتی تبدیلی پر 29ویں کانفرنس (COP29) جو کہ 11 سے 22 نومبر 2024 تک باکو آذربائیجان میں جاری رہے گی اور پاکستان کی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق صورتحال کے بارے میں سوچنے کا موقع ملا۔دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات سے نمٹنے کے لیے اس کانفرنس کی بہت اہمیت ہے۔ اس سال خاص طور پرکلائمیٹ چینج سے متعلق فنڈز پر توجہ دی جا رہی ہے اور اس میں وہ ممالک شامل ہیں جو موسمیاتی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔
پاکستان کو حالیہ برسوں میں شدید موسمیاتی آفات کا سامنا کرنا پڑا ہے جیسے کہ 2022 کا سیلاب ،جس میں تین کروڑ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے اور 1700 سے زائد افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کے علاوہ شدید گرمی کی لہر، خشک سالی اور گلیشیئرز کا پگھلنا جیسے مسائل بھی بڑھتے جا رہے ہیں، جن سے نہ صرف ماحول بلکہ لوگوں کی زندگیوں پر بھی برا اثر پڑ رہا ہے۔پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کا اثر صرف ماحولیاتی بحران تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک سنگین ترقیاتی اور انسانی بحران بھی بن چکا ہے۔ لاکھوں افراد ان آفات کا شکار ہو کر بے گھر ہو گئے ہیں، روزگار کے مواقع ختم ہو گئے ہیں اور صحت کے مسائل میں اضافے کی وجہ سے عوام کی حالت مزید ابتر ہو چکی ہے۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور جب بھی موسمیاتی آفات آتی ہیں اسے دوبارہ تعمیر وترقی کی راہ پر گامزن کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔COP29 کانفرنس میں پاکستان کو یہ امید ہے کہ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے فنڈز کیلئے ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔ ترقی یافتہ ممالک نے 2009 میں وعدہ کیا تھا کہ وہ ہر سال 100 ارب ڈالر ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے اور ان کے تحفظاتی منصوبوں کے لیے فراہم کریں گے، لیکن ابھی تک یہ وعدہ پورا نہیں ہو سکا۔
پاکستان کو اس مالی امداد کی فوری ضرورت ہے تاکہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی صلاحیت بڑھا سکے اور زرعی اصلاحات، پانی کے انتظام اور قابلِ تجدید توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کر سکے۔پاکستان کی توقعات صرف فنڈز کی فراہمی تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس کے لیے اس مالی امداد کو حاصل کرنے کا عمل بھی آسان بنایا جانا چاہیے۔ کلائمیٹ فنڈز کے اجرا کا طریقہ کار پیچیدہ ہے اور بیوروکریسی کی تاخیر یا سخت شرائط کی وجہ سے اکثر وعدے پورے نہیں ہو پائے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کو یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ فنڈز کا درست اور شفاف استعمال ہواور ملنے والے فنڈز کرپشن کی بھینٹ نہ چرح جائیں بلکہ اس فنڈ کا فائدہ عوام تک پہنچ سکے۔پاکستان کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ نقصان اور تلافی کے فنڈ کے بارے میں عالمی سطح پر واضح اقدامات کیے جائیں تاکہ موسمیاتی آفات سے متاثرہ کمیونٹیز کی بحالی کی جا سکے۔ اس کے علاوہ، روایتی قرضوں اور گرانٹس کے علاوہ جدید مالیاتی طریقے جیسے کلائمیٹ بانڈز اور عوامی و نجی شراکت داریوں کو بھی زیرِ غور لانا ہوگا۔ اس سے پاکستان کو کم قیمت پر وسائل فراہم کیے جا سکتے ہیں اور اس کا قرضوں پر انحصار کم ہو سکتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے مسائل کے حل کے لیے صرف مالی امداد کافی نہیں ہے بلکہ پاکستان کو جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت بھی ہے تاکہ وہ پائیدار زراعت، پانی کے بہتر انتظام اور قابلِ تجدید توانائی کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا سکے۔ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور ماہرین کی مدد بھی پاکستان کے لیے ضروری ہے تاکہ وہ موسمیاتی بحران کا بہتر طور پر مقابلہ کر سکے۔پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ کلائمیٹ فنڈز کی فراہمی میں شفافیت ہو اور ان فنڈز کا استعمال عوامی فائدے کے لیے کیا جائے۔ موسمیاتی فنڈز کو درست طریقے سے استعمال کرنے کے لیے مئوثر نظام وضع کرنا بہت ضروری ہے تاکہ ان کا فائدہ واقعی متاثرہ افراد تک پہنچے۔
پاکستان کی COP29 میں شرکت اس بات کا اشارہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات عالمی سطح پر ہیں اور کوئی بھی ملک اس بحران سے اکیلا نہیں نمٹ سکتا۔ اگر ترقی یافتہ ممالک اپنے وعدوں کو عملی طور پر پورا کریں اور اعلان کردہ فنڈز فراہم کریں اور پاکستان کے ساتھ حقیقی شراکت داری قائم کریں تو یہ کانفرنس ایک نیا موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا اور یہ وعدے صرف الفاظ تک محدود رہ گئے تو عالمی سطح پر عدم مساوات میں اضافہ ہو سکتا ہے اور متاثرہ ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے شدید اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان کے لیے یہ وقت وعدوں کا نہیں بلکہ عملی اقدامات کا ہے اور اس کو عالمی برادری کی حقیقی حمایت کی ضرورت ہے تاکہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کر سکے۔