کورونا سے پہلے — اسامہ منور
ہم سب اپنی روز مزہ کی مصروفیات میں اس قدر گم تھے کہ ہم اپنے گھر والوں کو، دوست احباب کو، رشتہ داروں کو حتیٰ کہ اپنے آپ کو بھی وقت نہیں دے پا رہے تھے. ہم نے اپنی زندگی کو اتنا شدید مصروف کر لیا تھا کہ زندگی خود ہم پر ہنستی تھی اور قہقہے لگا کر ہمارا مذاق اڑاتی تھی. ہمیں کسی چیز کا ہوش ہی نہیں تھا. ہم اتنے مادہ پرست ہو چکے تھے کہ ہم نے ہر وہ چیز، ہر وہ رشتہ، ہر وہ احساس اور ہر وہ بندھن جو ہمیں تقویت دیتا، ہمیں سکون فراہم کرتا اور ہمیں روحانی طور پر مضبوط بناتا، بھلا دیا.ہم صبح سے شام تک بس اسی تگ و دو میں لگے رہتے کہ کسی طرح ہم اتنی دولت اکٹھی کر لیں جو ہمیں دوسروں کے معاملے میں ممتاز بنا دے اور معاشرے میں ہمارا رتبہ دوسروں سے بلند ہو جائے پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ہمارا کردار کیسا ہے اور ہم اخلاقی طور پر کیسے ہیں.
ہم نے اپنا نام بنانے کے لیے ہر وہ کام کرنے کی کوشش کی جو ہمیں نہیں کرنا چاہیے تھا. ہم نے ہر وہ راہ اپنائی جس سے ہمیں احتراز برتنا چاہیے تھا. ہم نے ایسا کوئی بھی فعل نہیں چھوڑا جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہو اور ہم نے ہر وہ حد پار کی جس سے ہمیں روکا گیا تھا. ہم نے ہمیشہ اپنے آپ کو دیکھا، ہمیشہ دوسروں پر خود کو فوقیت دی. ہم نے اپنی جھوٹی، ادا اور کھوکھلی میں سے ہمیشہ دوسروں کو تکلیف پہنچائی. زندگی گزر رہی تھی. اس نے گزر ہی جانا تھا.
ہمارے چاہنے یا نہ چاہنے سے کیا فرق پڑنا تھا لیکن ہم نے اس بات کی بھی پروا نہیں کی کہ ہم اس فانی دنیا میں ہمیشہ نہیں رہ سکتے تھے. ہمیں اس چیز کو سمجھنا تھا، ہمیں اپنے آپ کو سمجھانا تھا، ہمیں دل اور دماغ کے مابین چھڑی ان دیکھی جنگ کو افہام و تفہیم سے ختم کرنا تھا. ہمیں دوسروں کے کام آنا تھا کہ زندگی کا بنیادی مقصد ہی یہی تھا. ہمیں مشکل میں اوروں کی مدد کرنی تھی کہ جینے کا حسن اسی میں تھا. ہمیں دوسروں کو خود پر فوقیت دینی تھی کہ اسی کا نام زندگی تھا.
ہمیں حلال کھانا تھا اور اپنی نسلوں کو پاکیزہ بنانا تھا، ہمیں حرام سے بچنا تھا اور اپنی نسلوں کو پاگل ہونے سے بچانا تھا، ہمیں دوسروں کے کام آنا تھا، ہمیں ہمیشہ نیکی کی تلقین کرنی تھی اور برائی سے روکنا تھا کہ یہی ہمارا شیوہ تھا. ہمیں علم حاصل کرنے کے بعد اسے جتانا نہیں تھا، لوگوں کو بتانا نہیں تھا، علم پر اترانا نہیں تھا بلکہ کچھ کر کے دکھانا تھا اور علم کی عملی تصویر بن کر اندھیری دنیا میں روشنی کی شمعیں روشن کرنی تھی.
ہمیں پیشوا بننا تھا، ہمیں رہبر و راہنما بننا تھا. ہمیں مفلسوں اور ناداروں کا ہمنوا بننا تھا ہمیں اشرف المخلوق ہونے کا حق ادا کرنا تھا ہائے ہائے مگر افسوس……. ہم کن کاموں میں پڑ گئے، ہم کن چکروں میں چکرا گئے، ہم کس جالے میں پھس گئے، ہم کس سحر میں جکڑے گئے. ہم سب کچھ ہی بھول چکے تھے، اخلاقیات بھی تباہ، معاملات بھی تباہ، عبادات بھی تباہ، رسومات بھی تباہ، زیارات بھی تباہ، احکامات بھی تباہ، سب کچھ ہی تو ہم نے تباہ کر دیا وہ بھی اس فانی دنیا کے لئے. اور پھر کورونا آیا… اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ، ہم نے پھر بھی تمسخر اڑایا، اپنے آپ کو سدھارنے کی کوشش تک نہیں کی، اپنے گریبان میں نہیں جھانکا، پھر بھی قصور وار دوسروں کو ہی ٹھہرایا.
ہماری دھرتی پر اس کا راج ہونے لگا مگر ہمیں پھر بھی سمجھ نہیں آیا. پھر کورونا کی ہولناکیاں آہستہ آہستہ ہمارے گھروں تک پہنچ گئیں ہم پھر بھی نہیں سدھرے. کورونا کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا کہ ہم اس کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ اس ان دیکھے جییو نے سب کچھ بدل ڈالا. ہمارے معاملات ہماری عبادات ہمارا رہن سہن ہمارے طور طریقے اور کسی حد تک ہماری جھوٹی نکمی دو ٹکے کی انا کو بھی.
ہم پھر سے اپنوں کو وقت دینے لگے، ہم پھر سے اپنے آپ کو وقت دینے لگے، ہم پھر سے اندر ہی اندر ہی ڈرنے بھی لگے اور اپنی گزشتہ زندگی میں کئے گئے بلنڈروں کو یاد کر کے پیدا کرنے والے سے معافی بھی طلب کرنے لگے. ہمارے میناروں سے راتوں کو اذانیں بھی بلند ہونے لگیں اور مندروں، گرجاگھروں سے حق حق کی صدائیں بھی بلند ہونے لگیں.
قصہ مختصر ہم لوگ کسی حد تک سدھرنے لگے. یہ وبا زیادہ دیر نہیں چلے گی کیونکہ اس سے بیشتر بھی بیسیوں وبائیں آ کر جا چکی ہیں مگر ہمیں اس وبا سے حاصل کرنا ان تمام اسباق کو تامرگ دم یاد رکھنا ہے جنھوں نے ہم میں سے کسی ایک کی زندگی کو بھی بدل ڈالا ہے.
ہمیں کورونا کے بعد کورونا سے پہلی والی زندگی کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دینا ہے اور جیون کی ابتدا ماں کے پیٹ سے کرنی ہے کہ ہم انسان ہیں، اور انسان انسانیت میں ہی اچھے لگتے ہیں.