کرونا وائرس لیب میں تیار ہوا یا قدرتی تھا، سینئر اینکر پرسن مبشر لقمان نے عیاں کردیا
باغی ٹی وی :سینئر اینکر پرسن مبشرلقمان نے اپنی تازہ یو ٹیوب ویڈیو میںکہا ہے کہ کرونا وائرس اس وقت پوری دنیا میںپھیل چکا ہے اور ہر طرف اس کے متعلق نمبر بتائے جا رہے ہیں کہ کتنی ہلاکتیں ہو چکیںاور کتنے مریض ہیں لیکن اصل کہانی کہ یہ وبا آئی کہاں سے آئی اور کیسے پھیلی اس بارے شاید ہی کوئی بات کرتا ہے انہوں نے کہا کہ کہا کہ اس سلسلے میں دیکھا جائے تو دال میںکچھ کال نہیں بلکہ بہت کچھ کالا نظر آتا ہے. چین کے صوبے ووہان کے متعلق یہ رپورٹس آئیں کہ وہاںکی سی فوڈ مارکیٹ کے شہریوں میں نمونیا کی شکایات ہیں. وہان ہیلتھ کمیشن کی طرف سے ان کیسز کے بارے میں رپورٹ 29 دسمبر 2019 کو سامنے آئی، 31 دسمبر کو پہلا پبلک نوٹس جاری ہوا کہ سی فوڈ مارکیٹکے نمونیا کے مریضوں کو ہسپتالوں میں علاج کےلیے رکھا جائے اور کہا گیا کہ اس مرض سے انسانوںسے انسانوں میںپھیلنے کا ثبوت موجود ہے. یکم جنوری 2020 کو سی فوڈ مارکیٹ بند کردی گئی.اور مارکیٹ کی صفائی شروع ہو گئی، جیسے جرائم کے نشانات کو دھویا جارہا ہے ہو.
مبشر لقمان نے کہا کہ جنوری کو چین کے وائرالوجسٹ انسٹی ٹیوٹ نے بتایا کہ سی فوڈ مارکیٹکے چھ سو سیمپل لیے گئے ان میں 33 سیمپل سے یہ یقینی بنایا گیا کہ انفیکش یہیںسے شروع ہو ا.. اس طرح آٍفیشل نتیجہ نکال لیا گیا کہ انفیکسن کا سورس ووہان سی مارکیٹ ہی ہے . کچھ دنوں کے بعد ایک ریسرچ رپورٹ آئی اور اس نے اس میں اس بات کو چیلنچ کیا اور کہا گیا کہ یہ انفیکشن ووہان سی فوڈ مارکیٹ سے نہیںآیا.کیونکہ جن پہلے مریضوں کے نمونے ان کے سامنے آئے ان کا سی فوڈ مارکیٹ سے کوئی تعلق قائم نہیں کیا جاسکا.اور کہاگیا کہ مارکیٹ میں چمگادڑ موجود ہی نہیں ہیں اور اتنا زیادہ انفیکشن پھیل ہی نہیں سکتا.اس کے بعد ایک اور تحقیق آئی کہ ننانوے مریضوں میں سے 50 کی سی فوڈ مارکیٹ جانے کی کوئی ہسٹری ہی نہیں ہے . اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کی جانب سے اس انفیکشن کو چھپانے کی بہت کوشش کی گئی ہے .
جنوری کو چین نے انفیکشن کی دس نئی جنیٹک رپورٹشائع کی جس میںبتایا گیا کہ اس نئے انفیکشن اور چمگادڑ سے نکلنے والے انفیکشن میں کافی زیادہ مشابہت پائی جاتی ہے . ماہرین نے یہ بھی کہا کہ اتنی زیادہ مشابہت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ انفیکشن قدرتی طور پر نہیںآیا.اور یہ ممکن ہی نہیںکہ یہ انفیکشن جانوروں سے انسانوں میںجائے اور اس کا سیکونس ایک ہی جیسا ہوِ اکیس جنوری کو ایک اور پیپر شائع ہوا جس میںکہا گیا کہ ووہان کے انفیکشن اور سارس انفیکشن میں مماثلت پائی جا تی ہے اور اس سیل میں پائی جانے والی ایس پروٹین اسے انسانوںکے سیل میں داخل ہونے کے لیے آسانی پیدا کرتی ہے. اور یہ صرف ایک لیبارٹری میں پیدا ہو سکتی ہے .
https://www.youtube.com/watch?v=eoUt-peJevs
انہوں نے کہا کہ پھر چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن نے ایک نوٹس جاری کیا جسمیں کہا گیا کہ انفیکشن پر کی جانے والی تحقیق کو بند کردیا جائے اور چین کے کمیونٹی انفیکشن کی تحقیق پر بالکل خاموشی ہوگئی. یوں یہ بات ثابت نہ ہو سکی کہ یہ وائرس حقیقت میں کیا تھا اور کہا ںسے آیا . چین کے اس رویے پر بہت زیادہ تنقید کی جا رہی ہے. اور کہا جارہا ہے کہ ایسے وائرس پھر سے آتے رہیں گے اور اس کی روک تھام کے لیے کوئی حتمی نتیجہ نہیںنکالا گیا تو کیا انسانیت ایسےہی مرتی رہے گی .مغرب چین پر یہ الزام لگا رہا ہے.کہ ان سب ہلاکتوں کا ذمہ دار چین ہے .
چینی ماہرین نے اس انویسٹی گیشن میں عالمی ماہرین کو شامل نہیںکیا اور اس تحقیق کو سیل کردیا . مبشر لقمان نے سوال اٹھایا کہ اگر اس وبا کی وجہ قدرتی تھی تو چین نے اس تحقیق کو سنسر کرنااور اثر انداز ہونا کیوں شروع کردیا.اور پھر بالکل ہی بند کردیا ،
انہوں نے کہا کہ اسی طرح پہلے جتنے بھی انفیکشن شروع ہوتے تھے وہ ہانگ کانگ کے گردو نواحسے شروع ہوتے تھے ، یہ وائرس چین کے وسط ووہان سے کیوں شروع ہوا.اور ووہان میں موجود لیب پر کوئی تحقیق سامنے کیوںنہیںآئی ؟ انہوں نے کہا کہ کہ سب سولات ہیں جو بڑی سنجیدگی سے جواب طلب ہیں.مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ ان سب حقائق کی بنیاد پر یہ صرف سازشی تھیوری نہیں رہ جاتی کہ کرونا وائرس لیب مین تیار کیا گیا بلکہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسے تیار کیا گیا اور دنیا کو اس کی اتنی قیمت چکانا پڑ رہی ہے .