پی ٹی آئی حکومت میں کورونا ریلیف فنڈ کے نام پر اکٹھا کیا گیا 5 ارب وبا کے سدباب کیلئے استعمال نہیں ہوا تھا

پی ٹی آئی حکومت میں کرونا فنڈ کے نام پر اکٹھا کیا گیا 5 ارب کرونا وبا کے سدباب کیلئے استعمال نہیں ہوا تھا.

عمران خان کے کووڈ ریلیف پیکیج کی آڈٹ رپورٹ میں ’اربوں روپے کی بےضابطگیوں‘ کی نشاندہی کی گئی، آپ کو یاد ہوگا کہ سنہ 2020 میں پاکستان میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے مختص کیے گئے امدادی پیکیج کی جانچ پڑتال کی رپورٹ میں اربوں روپوں کی بےضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی تھی.

رپورٹ میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے این ڈی ایم اے، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی)، یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن، وزارت دفاع اور دیگر محکموں کے اکاؤنٹس اور ان کو کووڈ 19 کی وبا سے نمٹنے کی مد میں دی گئی رقم کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔ تاہم اس وقت رپورٹ میں سامنے آنے والی بے ضابطگیوں کے بارے میں جب وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف اس رپورٹ سے ‘مطمئن’ ہے جبکہ اس رپورٹ میں موجود بے ضابطگیوں کی ‘توثیق’ کی جا چکی ہے۔

لیکن انھوں نے ان محکموں اور اداروں میں ہونے والی بے ضابطگیوں کے خلاف کسی قدم اٹھائے جانے یا انکوائری شروع کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا تھا.

آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کی جانب سے تیار کی گئی یہ رپورٹ 30 جون 2020 کے مالی سال کے اختتام پر کورونا امدادی سرگرمیوں میں شامل وفاقی محکموں کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کے بعد گزشتہ سال جون میں مکمل کی گئی تھی. دو سو سے زائد صفحات پر مبنی اے جی پی کی اس رپورٹ میں این ڈی ایم اے، بی آئی ایس پی، یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن، وزارت دفاع اور دیگر سرکاری محکمہ جات کو کووڈ امدادی پیکج کے تحت دی جانے والی رقوم کی جانچ پڑتال کی گئی تھی جس میں کم از کم چالیس ارب روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی اور ان کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے تھے۔

این ڈی ایم اے کو اس عرصے میں 33 ارب روپے دیے گئے جس میں ادارے نے تقریباً 23 ارب روپے استعمال کیے۔ تاہم اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کے بعد بتایا گیا کہ آڈٹ کے دوران متعدد ایسے مشاہدات سامنے آئے جس میں سامان حاصل کرنے کے عمل میں بے ضابطگیاں، معاہدوں اور مالیاتی معاملات میں نگرانی کے عمل میں کمزوریاں نظر آئیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ کئی مواقعوں پر طلب کیا گیا ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔


این ڈی ایم اے کی جانب سے نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (این آئی ٹی بی) کے ساتھ ریسورس مینجمنٹ سسٹم کے نفاذ کے لیے کیے گئے تقریباً سوا چار کروڑ روپے کے معاہدے پر رپورٹ میں سوالات اٹھائے گئے اور کہا گیا تھا کہ ‘معاہدہ کی کوئی توجیہ نہیں کیونکہ این آئی ٹی بی کے پاس اس نظام کو نافذ کرنے کی ’اہلیت نہیں تھی اور نہ ہی اس معاہدے کو اتنی جلد بازی میں کرنے کی توجیہ قابل قبول ہے۔

رپورٹ میں یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ چینی کی خریداری میں 1.4 ارب روپے جبکہ گھی اور کوکنگ آئل کی خریداری کی مد میں 1.6 ارب روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی ہوئی.

واضح‌ رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ملک میں سیلاب کی تباہ کاری اور متاثرین کی مدد کے لیے منعقد کی گئی ٹیلی تھون میں تحریک انصاف کی جانب سے پانچ ارب روپے کے عطیات وصول ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس پانچ ارب روپے کا حشر بھی وہی ہوگا جو ماضی میں کرونا فنڈ کا ہوا تھا؟

Comments are closed.