بدعنوانی و سفارشہ، خواجہ آصف کی تنقید ، اصلاح کون کرے گا؟
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفےٰ بڈانی
پاکستان کے وزیر دفاع اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ محمد آصف نے 26 اکتوبر 2025 کو ایک ٹویٹ میں سرکاری ملازمتوں میں رائج بدعنوانی اور سفارش کلچر پر کڑی تنقید کی۔ انہوں نے سیالکوٹ کے سردار بیگم ہسپتال کی نئی عمارت کے افتتاح کے موقع پر بتایا کہ ایک سال میں سیالکوٹ میڈیکل کالج کے 22 پروفیسرز نے لاہور تبادلے کروائے کیونکہ وہاں پرائیویٹ پریکٹس اور دیگر سہولیات دستیاب ہیں۔ محکمہ صحت کے افسران سے بات چیت میں انہیں بتایا گیا کہ لاہور میں پوسٹنگ کے لیے سفارشیں، ہڑتالیں اور دباؤ معمول کی بات ہیں۔ خواجہ آصف کے مطابق یہ کلچر تمام سرکاری اداروں میں پھیل چکا ہے، اور بااثر سیاست دان اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اس کی پشت پناہی کرتے ہیں۔

خواجہ آصف نے خود اعتراف کیا کہ وہ بھی ماضی میں اس "گناہ” کے مرتکب رہے ہیں۔ انہوں نے فوج اور سول سروسز کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر فوج میں بھی مرضی کی پوسٹنگ کا رواج ہوتا تو دہشت گردی کے خلاف جنگ اور سرحدوں کی حفاظت ممکن نہ رہتی۔ ان کے مطابق فوجی جوانوں نے چار سال میں چار ہزار شہادتیں دیں، مگر وہ سول افسران سے زیادہ تنخواہیں نہیں لیتے اور نہ ہی غیر ملکی پاسپورٹ رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے حلقے کے ایک پٹواری کی مثال دی جو کینیڈا میں رہائش پذیر ہے اور یورپ میں کاروبار رکھتا ہے، جبکہ اس کے سفارشی اثرورسوخ والے لوگ ہیں۔ خواجہ آصف نے زور دیا کہ اس کلچر کی بیخ کنی ضروری ہے، اور امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قول سے اختتام کیا:
"Ask not what your country can do for you.ask what you can do for your country.”

سوال مگر یہ ہے کہ اگر ایک سینئر حکومتی وزیر، جو خود اقتدار اور قانون سازی کے مراکز میں اثر و رسوخ رکھتا ہے، صرف سوشل میڈیا پر تنقید کرتا ہے تو اصلاحی اقدامات کون کرے گا؟ خواجہ آصف کے پاس پالیسی اور قانون سازی کی طاقت ہے، اس کے باوجود وہ محض بیانات تک محدود کیوں ہیں؟ اگر وہ واقعی اس نظام کی خرابی کو محسوس کرتے ہیں تو اصلاح کے لیے عملی اقدامات کیوں نہیں کیے جا رہے؟

سرکاری ملازمتوں میں سفارش اور دوہری وفاداری کا مسئلہ نیا نہیں۔ خواجہ آصف نے اس سے قبل بھی بیوروکریسی پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات عائد کیے تھے اور کہا تھا کہ آدھے سے زیادہ افسران ملک چھوڑنے کی تیاری میں ہیں۔ جنوری 2025 میں قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ بائیس ہزار سے زائد سرکاری افسران دوہری شہریت رکھتے ہیں۔ 2018 میں سپریم کورٹ نے دو سو تیرہ افسران کو دوہری شہریت چھپانے پر نوٹس جاری کیے تھے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ سرکاری نظام میں بدعنوانی اور غیر وفاداری کس حد تک سرایت کر چکی ہے۔

پٹواری نظام، جو زمین کے ریکارڈ کا بنیادی ستون ہے، سب سے زیادہ کرپٹ اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ برطانوی دور سے چلا آ رہا یہ نظام دستی ریکارڈ پر منحصر ہے، جس سے جعلسازی اور رشوت ستانی آسان ہو جاتی ہے۔ پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کی ڈیجیٹلائزیشن سے اصلاح کی کوشش ضرور ہوئی ہے مگر رفتار سست ہے۔ آج بھی ضلعی بیوروکریسی نے کئی اہم مواضعات کو اپنے کچن چلانے کے لیے کمپیوٹرائزڈ نہیں ہونے دیا، تاکہ رشوت، سفارش اور مفاد پر مبنی لین دین کا سلسلہ برقرار رہ سکے۔ خواجہ آصف کے بیان کردہ پٹواری کی مثال اس نظام کی انہی خامیوں کی علامت ہے، جہاں سرکاری ملازم بیرونِ ملک کاروبار اور رہائش رکھتے ہیں مگر جواب دہی سے بالاتر ہیں۔

اگر خواجہ آصف واقعی اصلاح چاہتے ہیں تو ان کے پاس کئی راستے ہیں، دوہری شہریت رکھنے والے سرکاری افسران کے لیے سخت قانون سازی، سفارش کلچر کے خاتمے کے لیے ادارہ جاتی اصلاحات، اور پٹواری نظام کی مکمل ڈیجیٹل تبدیلی۔ 2022 میں تجویز دی گئی تھی کہ دوہری شہریت رکھنے والے افسران کو اعلیٰ عہدوں سے روکا جائے — اگر خواجہ آصف واقعی سنجیدہ ہیں تو وہ اس تجویز کو قانون کی شکل دے سکتے ہیں۔ اسی طرح نیب اور ایف آئی اے کو سیاسی دباؤ سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ غیر ملکی مفادات رکھنے والے افسران کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کر سکیں۔

فوج اور سول سروس کے درمیان خواجہ آصف کا تقابلی نکتہ اخلاقی اعتبار سے درست ہےکہ فوجی اپنی جان دیتے ہیں، جبکہ سول افسران اکثر نظام سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اگر اصلاح کی بات صرف تقریروں اور ٹویٹس تک محدود رہے تو یہ تضاد برقرار رہے گا۔ یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ اگر ایک وزیر، جو اقتدار کا حصہ ہے، عملی اقدامات نہیں اٹھاتا تو پھر اصلاح کون کرے گا؟

یہ صرف کسی ایک وزیر یا ادارے کا نہیں بلکہ پورے نظام کا امتحان ہے۔ خواجہ آصف کی تنقید ایک آئینہ ہے جو ہمیں یہ دکھاتا ہے کہ نظام کی خرابیوں کا اعتراف تو سب کرتے ہیں، مگر اصلاح کا بوجھ کوئی نہیں اٹھاتا۔ آخر کب تک ہم یہ سوال دہرائیں گے کہ "ملک ہمارے لیے کیا کرے؟” اب وقت ہے کہ حکمران خود جواب دیں کہ وہ ملک کے لیے کیا کر رہے ہیں۔

Shares: