فرانس کی دائیں بازو کی سیاستدان اور نیشنل رالی پارٹی کی رہنما، میرین لی پین کو یورپی پارلیمنٹ کے فنڈز کے غلط استعمال کے الزام میں سزا سنائی گئی ہے۔ 31 مارچ 2025 کو یہ فیصلہ سنایا گیا، جس کے مطابق لی پین نے یورپی پارلیمنٹ کے فنڈز کو اپنے سیاسی عملے کو تنخواہیں دینے کے لیے استعمال کیا تھا۔ عدالت نے انہیں چار سال قید کی سزا سنائی، 100,000 یورو جرمانہ عائد کیا اور پانچ سال تک کسی بھی سیاسی عہدے کے لیے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ 2027 کے فرانسیسی صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گی۔
میرین لی پین کی سزا ایک اہم مثال ہے کہ عدلیہ میں انصاف کا عمل ہر کسی پر لاگو ہوتا ہے، چاہے وہ سیاستدان ہو یا عام شہری۔ اس فیصلے سے ثابت ہوتا ہے کہ قانون کی حکمرانی اور انصاف کے اصول پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ چاہے آپ کا سیاسی درجہ یا سماجی مقام کچھ بھی ہو، قانون سب کے لیے یکساں ہے۔ یہ فیصلہ ایک اہم پیغام دیتا ہے کہ قانون سے بالاتر کوئی بھی نہیں ہوتا اور ہر فرد کو اپنے اعمال کا حساب دینا پڑتا ہے۔
میرین لی پین کے اس کیس کو پاکستان کے سابق وزیرِاعظم عمران خان کے کیس سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ جیسے میرین لی پین کو اپنے عمل کا جواب دہ ٹھہرایا گیا، ویسے ہی عمران خان کو بھی عدالتوں کے سامنے اپنی ذمہ داری کا سامنا ہے۔ عمران خان کو بھی عدالت نے سزا سنائی ہے،دونوں کیسز سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سیاستدانوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے، اور ان کے خلاف عدلیہ میں فیصلے کا عمل ضروری ہے، چاہے وہ کسی بھی ملک یا سیاسی پس منظر سے تعلق رکھتے ہوں۔ ان مثالوں سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ انصاف اور قانون کی حکمرانی کسی بھی ملک میں ضروری ہے، اور اس میں کسی فرد یا عہدے دار کے لیے کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔
جب پاکستان نے عمران خان جیسے پاپولسٹ لیڈر کو 190 ملین پاؤنڈ کرپشن اسکینڈل میں سزا دی، تو مغربی میڈیا نے اسے "سیاسی انتقام” قرار دینے کی کوشش کی۔ تاہم، اب فرانس میں میرین لی پین کو فنڈز خوردبرد پر سزا دی جا رہی ہے اور مغربی ممالک بھی اس فیصلے کے ساتھ ایک نئی مثال قائم کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت ظاہر کرتی ہے کہ دنیا بدل رہی ہے اور انصاف کا دائرہ اب "بڑے ناموں” تک پہنچ رہا ہے جو ماضی میں اپنے کلٹ کی مدد سے ریاستوں کو بلیک میل کرتے تھے۔
فرانس میں جہاں میرین لی پین کو ریاستی وسائل کے غلط استعمال پر سزا دی گئی، وہیں پاکستان میں صورتحال افسوسناک ہے۔ خیبرپختونخواہ میں حکمران جماعت کے رہنما ریاستی وسائل کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں، یہاں تک کہ رمضان میں امدادری رقم بھی غریبوں اور مستحقین میں تقسیم کرنے کی بجائے اپنے کارکنان میں تقسیم کر دی گئی،مگر کوئی احتساب نہیں ہو رہا۔ عوام کے پیسے پر پلنے والے یہ عناصر کھلے عام انتشار پھیلا رہے ہیں اور ریاستی وسائل کے غلط استعمال کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ اگر پاکستان میں حقیقی استحکام لانا ہے تو ریاستی وسائل کے غلط استعمال کو روکنا ہوگا اور قانون کو سب کے لیے یکساں بنانا ہوگا۔ جب تک احتساب کا عمل شروع نہیں ہوگا، ملکی ترقی اور استحکام ممکن نہیں۔
ان دونوں مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ انصاف اور قانون کی حکمرانی کسی بھی ملک میں ضروری ہے، اور یہ ہر فرد یا عہدے دار کے لیے یکساں طور پر لاگو ہونی چاہیے۔ چاہے یہ معاملہ فرانس کا ہو یا پاکستان کا، قانون کو بغیر کسی امتیاز کے نافذ کرنا ایک مضبوط ریاست کی علامت ہے۔