خواتین افسران میں مالی کرپشن کا ریٹ اور رجحان مرد افسران سے کہیں زیادہ ہے۔ خواتین افسران کی معزز شہریوں کے ساتھ بدتمیزی اور تحقیر آمیز رویہ تو عمومی ہے جبکہ اپنے ماتحت افسران اور سٹاف کے ساتھ بھی انتہائی ہتک آمیز سلوک کی ان گنت مثالیں اور داستانیں ہیں۔خواتین افسران کے بارے عمومی رائے ہے کہ یہ مسائل کا حل کرنے کے بجائے "ٹربل میکرز” کا رول ادا کرتی ہیں ۔خواتین افسران کی بڑی تعداد کمائی والی سیٹوں پر منشی بن کر پیسے اکٹھی کرتی ہیں اور آگے تک پہنچاتی بھی ہیں۔خواتین افسران کی اکثریت آج بھی سرکاری نوکری کو عزت اور رزق حلال کا زریعہ بنائے ہوئے ہیں۔
خواتین افسران میں سے کم از 30سے 35فیصد کرپشن کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں جبکہ بڑے خواب اور وقت سے پہلے سب کچھ پالینے کی خواہشات کی تکمیل کیلئے 3سے4فیصد کی بہت محدود تعداد بیوروکریٹک پارٹی گروپ جوائن کرچکی ہیں۔
بہت سی جگہوں پر دیکھا گیا کہ خواتین افسران اگر اے سی، اے ڈی سی آر یا ڈی سی ہیں تو انکا ہیڈ کلرک ”سیٹ“ چلا رہا ہوتا ہے۔ایک خاتون افسر نے اپنے بیج میٹ سے جلدی کام کرنے کے پیسے مانگ لیے اور ساتھ احسان بھی جتلایا کہ یہ کام اتنے کا تھا تمہیں ڈسکاؤنٹ دے رہی ہوں۔ اسی طرح ایک اتھارٹی کی سربراہ خاتون افسر نے ایک کام کے چالیس لاکھ مانگے تو متعلقہ سپیشل سیکرٹری تک شکایت پہنچی تو انہوں نے فون پر بہت ججھکتے ہوئے بات کی میڈم شائد آپ کے بیحاف پر کسی نے فلاں بندے سے پیسے مانگے ہیں تو مذکورہ خاتون نے جھٹ سے جواب دیا کہ سر آپ سے اوپر افسر تک بھی جاتے ہیں آپ”چل“ کریں۔بہت سی خواتین افسران کے کاروباری شوہر اپنی بیویوں کے سرکاری دفاتر میں کرسی رکھے کے بیٹھے ہوتے ہیں۔
دبنگ افسر: 
ان کے بارے مشہور کردیا جاتا ہے کہ بہت دبنگ افسر ہے کسی کی بات نہیں سنتی، ایسی افسران اپنے افسر کیڈر پر بھی اعتبار نہیں کرتی کہ حصہ مانگ لے گا ان کا سارا لین دین مخصوص چھوٹا ملازم کرتا ہے۔ ایسی خواتین افسران نے مالی کرپشن جی بھر کر کرنی ہوتی ہے حتیٰ کہ جوکام مرد افسر سے تعلق واسطے یا ڈسکاؤنٹ کے ساتھ کروایا جاسکتا ہے وہی کام خاتون افسر "فکس ریٹ“پر کرتی ہیں۔ ایسے افسران کسی اتھارٹی یا محکمے میں گئیں تو اسکی کھال تک اتار کر بیچنے کی حد تک جاتی ہیں جبکہ تحصیل اور ضلعی سربراہ کی طور پر بڑے کاروباری مراکز اور ہاؤسنگ سوسائیٹیز سے لیکر گھریلو زمین کے تنازع کو بھی کمائی کا زریعہ بنا لیتی ہیں۔
گرل فرینڈ کلچر:
خوش آئند بات یہ ہے کہ خواتین افسران میں سے بامشکل 3سے4فیصد خواتین نے اس راستے کو اپنایا ہے۔لیکن خطرناک بات یہ ہے پارٹی گروپ والی افسران کی دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی سپیڈ باقیوں کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔ اس سے بڑھ کر تشویش والی بات یہ ہے کہ ایسی خواتین افسران اہم سیٹوں پر آنے کیلئے ناصرف خود پارٹی گروپ جوائن کرتی ہیں بلکہ دیگر خواتین افسران کو گروپ جوائن کروانے کیلئے بھی آفرز کرتی ہیں، بڑے افسران کی پارٹی میں "پارٹی آؤٹ فٹ” زیب تن کیے مرکز نگاہ ہوتی ہیں اور جام بنانے اور پلانے کا ہنر آزماتی ہیں اور اہم افسران کی گرل فرینڈ بن جاتی ہیں۔  تگڑی سیاسی شخصیت اور بڑے افسر کی گرل فرینڈ بنی افسران اپنے محکمے کی چودھرانی بن جاتی ہے اور جونئیرز کو ذاتی ملازم کی طرح اور سنئیرز کو فار گرانٹڈ لیتی ہیں، اسی طرح بڑے افسر تک رشوت اور گھپلوں کی رقم کا حصہ پہنچانے والی خواتین افسران بھی دھرلے سے ایڈیشنل چارج بھی اپنے پاس رکھتی ہیں۔
فرسٹ جنریشن افسر خواتین میں سے اکثریت خود کو ماورائی مخلوق، جبکہ ماتحت عملے اور معزز شہریوں سے بدتمیزی اور کرپشن کی کمائی کو اپنا حق سمجھتی ہیں۔ فرسٹ جنریشن افسر خواتین میں سے جو میرٹ پر کام کرتی ہیں اور کسی بھی پارٹی یا کنسپٹ کلئیر کرپٹ گروپ سے تعلق نہیں رکھتیں انہیں کھڈے لائن ٹائپ پوسٹنگ ہی دی جاتی ہے۔جب سنئیر افسران کو ”فیس سیونگ“ کیلئے کوئی ایماندار افسر چاہئے ہو تو ایسی خواتین کی اچھی پوسٹنگ کی صورت لاٹری لگ جاتی ہے۔
ایک خاتون آفیسر نے اپنے غم کا اظہار اس شعر کے ساتھ کیا کہ
اب تو گھرا کے کہتے ہیں مرجائیں گے
مر کر بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
دنیا جہاں سے الگ ہوکر دن رات محنت کرکے مقابلے کا امتحان پاس کیا، سی ایس ایس کر کے بھی کبھی اچھی پوسٹنگ اس نہیں مل سکی کہ نہ تو وہ افسران کی ساقی و نائکہ بن سکتی ہے اور نہ ہی منشی بن کر رشوت بازاری اور سرکاری فنڈز میں گھپلے کرسکتی ہے۔ یہ ساری باتیں وہی ہیں جو بیوروکریسی کے افسران کی زبان زدعام ہیں جبکہ جو باتیں جن القابات اور طریقوں سے خواتین افسران دوسری خواتین کے بارے بتاتی ہیں وہ لکھنے سے قاصر ہوں۔
بیوروکریٹک یا آفیسر بیک گراؤنڈ کی حامل خواتین کی اکثریت کو اپنے مضبوط بیک گراؤنڈ کی وجہ سے کسی بھی کرپٹ گروپ کا حصہ بنے بغیر ہی پوسٹنگ مل جاتی ہے۔ سرکاری بیک گراؤنڈ کی حامل خواتین افسران میں زیادہ تر تمیزدار اور رکھ رکھاؤ والی ہوتی ہیں جبکہ چند اسی بیک گراؤنڈ کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے”غندہ ازم“ کو اپنا استحقاق سمجھتی ہیں۔ مرد افسران کی بدتمیزی کا جہاں اختتام ہوتا ہے ان تگڑے بیک گراؤنڈ والی خواتین کی جہالت اور بدتمیزی کا نقطہ آغاز، ایسی باس خواتین کے رویے سے مرد و زن کوئی بھی محفوظ نہیں، چند ماہ قبل ایسی ہی بدتمیز باس کی وجہ سے ایک آفیسر ہارٹ اٹیک کرواکر ”پی آئی سی“ پہنچ گئے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین افسران کیلئے مستقل بنیادوں پر کپیسٹی بلڈنگ، پبلک ریلیشنز اور نفسیاتی امور کی ٹریننگ کا اہتمام کیا جائے۔ خواتین افسران کو چاہئے کہ اس مشرقی معاشرے میں خواتین کو جس قدر احترام دیاجاتا ہے اس کا تھوڑا سا مان بھی رکھ لیں نا کہ ہر برائی کا دفاع ”خاتون کارڈ“ کی مظلومیت سے کریں۔










