کرپشن اور پاکستان، تحریر:عبدالوحید

کسی بھی ترقی یافتہ ممالک میں سیاستدانوں پر جب معمولی کرپشن کے الزامات لگتے ہیں تو فوری مستعفی ہو جاتے ہیں
مگر یہاں کے سیاست دانوں کی بات ہی کچھ اور ہے ۔اس ملک کے سیاست دان اپنی کرپشن کا کھل کر دفاع کرتے ہیں اور خود کو بہت بڑا فاتح سمجھنے لگ جاتے ہیں جیسے انہوں نے کوئی بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہوا ۔ کرسٹیان وولف جرمنی کے صدر تھے ۔اور وہ اپنی مقبولیت کے عروج پر تھے ۔اور یہ انکشاف ہوا کہ نجی سفر کے دوران ان کے ہوٹل کا کرایہ ان کے کسی دوست نے ادا کیا تھا جو کہ کرپشن کے زمرے میں آتا ہے ۔اور ساتھ ہی کرسٹیان وولف نے اپنے مکان کے لیے رعایتی شرائط پر قرض لینے کا بھی الزام تھا ۔ ان الزامات کی بنیاد پر اپوزیشن جماعتوں نے ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا اور ان پر دباؤ ڈالا ۔ کرسٹیان وولف نے سبکی سے بچنے کے لیے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور صدر نے اپنے بیان میں کہا ان واقعات کی وجہ سے مجھ پر عدم اعتماد کا دھچکا لگا ہے اس لیے میں صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے رہا ہوں ۔

ایسے کئی واقعات ہیں جو ترقی یافتہ ممالک کے سربراہان پر لگے اور انہوں نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ۔ لیکن پاکستان میں جس طرح کی لوٹ مار ہورہی ہے اس پر کسی کو شرمندگی تک محسوس نہیں ہوتی ۔ موجودہ دور کی بات کی جائے تو اپوزیشن جماعتوں کے تمام تر بڑے لوگوں پر کرپشن کے الزامات ہیں اور بہت سے لوگوں پر کرپشن ثابت بھی ہوچکی ہے اور اس بنیاد پر انہیں جیل بھی ہو چکی ہے لیکن وہ کسی قسم کی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی اور اپنے کرپشن کا بڑھ چڑھ کر دفاع کرتے ہیں اور فخر محسوس کرتے ہیں ۔

کرپشن کسی بھی ملک کے لیے ناسور ہوتا ہے جس سے ملک ترقی کی بجائے تنزلی کی جانب جاتا ہے ۔کرپشن چاہے مالی ہو اخلاقی ہو اس حقیقت سے کون منکر ہوسکتا ہے کہ قومی خزانے کی چوری ملک کی مالی وسائل کی لوٹ مار ایسا ناسور ہے جو ہمارے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں سمیت پورے معاشرے میں ایک خطر ناک حد تک ناسور سرائیت حاصل کر چکی ہے ۔ پوری قوم رشوت اور مالی بدعنوانیوں کے خلاف احتجاج کرتی نظر آتی ہے کرپشن ایک ہمہ جہت سماجی برائی ہے ۔ جب طبقات میں سماجی توازن برقرار نا رہے اور معاشی ناہمواری بڑھتی چلی جائے ۔ تو اعلیٰ اقدار ، سماعت ، مساوات انصاف ،احترام ، آدمیت ،اور انسان دوستی کا فروغ ملنا بند ہو جاتا ہے ۔ غربت اور بے روزگاری میں اضافے سے چوری ، قتل ،ڈاکے ،دہشت گردی کے جارحانہ رویوں اور اخلاق سوز سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔ کرپشن کی وجہ سے عام آدمی کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے۔معاشرے میں صحت مند مقابلہ کا رحجان کم ہو جاتا ہے ۔ نااہل اور بد دیانت افراد اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں اور موجودہ حالات میں مصائب کاٹھیں مارتا ہوا سمندر ملک کو چاروں طرف سے گھیرے ہوا ہے ۔ ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی مسائل کی فہرست اس قدر طویل ہے کہ جن کا شمار ناممکن کے قریب ہے ۔ جناح کے اس پاک سرزمین کو بد دیانت ، چور ، نااہل اور کرپٹ سیاست دانوں نے گھیر رکھا ہے ۔ ملک کو آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی جانب دھکیل رہے ہیں ۔ اس کرپشن کو ختم کرنے کا واحد راستہ یہی ہے اس ملک میں نئے قوانین متعارف کراۓ جائیں جوکہ انتہائی سخت ہوں اور کرپٹ سیاست دانوں ، بیوروکریسی کو سخت سے سخت سزا دی جائیں تاکہ یہ دوسروں کو معلوم ہوسکے ۔ کرپشن کی سزا موت ہے ۔اس طریقے کرپشن ختم ہوسکتی ہے ۔ اگر اس کرپشن کا کوئی ادراک نہیں کیا گیا تو آئندہ آنے
والی نسل ان لوگوں کو کھبی معاف نہیں کرے گا ۔
جو حکمرانی کے تخت پر فائز ہیں اور جو فائز رہے ہوں۔

Comments are closed.