جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف ریفرنس،جسٹس اعجاز الاحسن کو جوڈیشل کونسل سے الگ کرنے کیلئے درخواست دائر

جسٹس اعجاز الاحسن کی جگہ دوسرے سینئر جج کو سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ بنایا جائے
0
187
naqvi

سپریم کورٹ،جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کاروائی کا معاملہ،جسٹس اعجاز الاحسن کو جوڈیشل کونسل سے الگ کرنے کیلئے درخواست دائر کر دی گئی

میاں داود ایڈوکیٹ نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی، درخواست میں استدعا کی گئی کہ جسٹس اعجاز الاحسن کی جگہ دوسرے سینئر جج کو سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ بنایا جائے،درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ جسٹس اعجاز الاحسن کو جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف شکایت سننے والی کونسل سے الگ ہونا چاہیے،جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف کرپشن اور مس کنڈکٹ کا ریفرنس جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ہے،سائل کی شکایت پر جوڈیشل کونسل جسٹس مظاہر نقوی کو دوسرا شوکاز نوٹس جاری کر چکی ہے،شوکاز نوٹس میں جسٹس مظاہر نقوی سے تین آڈیو لیکس بارے سوال کیا گیا ہے،تینوں آڈیو لیکس مقدمات کی فکسنگ اور غلام محمود ڈوگر کیس سے متعلق ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن اس بنچ کا حصہ تھے جس نے غلام محمود ڈوگر کیس سنا،قانونی اور اصولی طور پر غلام محمود ڈوگر کا مقدمہ سننے والا کوئی جج جوڈیشل کونسل کا ممبر نہیں رہ سکتا، جسٹس اعجاز الاحسن کا سپریم جوڈیشل کونسل میں ممبر رہنا آئین کے آرٹیکل 10 اے اور 9 کیخلاف ہے،جسٹس اعجاز الاحسن کا جوڈیشل کونسل کا حصہ رہنا مفادات کے ٹکراو اور شفافیت کے اصول کیخلاف ہے،شکایت کنندہ سمیت عوام کو یہ تاثر ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن کونسل میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکیں گے،جسٹس اعجاز الاحسن کا جسٹس نقوی کو شوکاز نوٹس جاری کرنے سے دو مرتبہ اختلاف کرنا جانبداری کو مزید مضبوط کرتا ہے،درخواست میں وفاقی حکومت اور سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل کو فریق بنایا گیا ہے،درخواست کے ساتھ سابق سی سی پی او غلام محمود ڈوگر کے مقدمے ک آرڈر شیٹ بھی منسلک ہے

قبل ازیں گزشتہ روز سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت کے معاملے پر رجسٹرار سپریم کورٹ کے نوٹس کا جواب جمع کرادیا،جسٹس مظاہرنقوی نے جواب کی کاپی سپریم کورٹ کی 3 رکنی کمیٹی کوبھی بھجوادی جس میں کہا گیا ہےکہ میں نے2 آئینی درخواستیں سپریم کورٹ میں دائرکر رکھی ہیں، میری درخواستوں پر تاحال نمبر نہیں لگایا گیا، آئینی درخواستوں کوجلد مقررکرنے کے لیے متفرق درخواست بھی دائرکی لیکن مقدمہ نہیں لگا،آئینی درخواستیں مقررنہ ہونا پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کیخلاف ورزی ہےیہ آئینی درخواستیں 3 رکنی کمیٹی کے سامنے رکھی جائیں اور اور میری دونوں آئینی درخواستوں کو سماعت کیلئے مقرر کیا جائے

جسٹس مظاہر نقوی پر الزام ہے کہ انہوں نے بطور سپریم کورٹ جج اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنی آمدن سے زیادہ مہنگی لاہور میں جائیدادیں خریدی ہیں لہذا سپریم جوڈیشل کونسل اس کو فروخت کرے اور اعلیٰ عدلیہ کے جج کے خلاف کارروائی کرے۔

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں ملک کی بار کونسلز نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کی آڈیو لیک کے معاملے پر سپریم کورٹ کے جج مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف بلوچستان بار کونسل سمیت دیگر نے ریفرنسز دائر کر رکھے ہیں۔

ریفرنس میں معزز جج کے عدالتی عہدے کے ناجائز استعمال کی بابت بھی معلومات فراہم کی گئی ہیں جبکہ معزز جج کے کاروباری، بااثر شخصیات کے ساتھ تعلقات بابت بھی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ ریفرنس میں معزز جج کےعمران خان اور پرویز الہیٰ وغیرہ کے ساتھ بالواسطہ اور بلاواسطہ خفیہ قریبی تعلقات کی بابت بھی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل پر اٹھائے اعتراضات

ہائیکورٹ نے کیس نمٹا کرتعصب کا مظاہرہ کیا،عمران خان کی سپریم کورٹ میں درخواست

جسٹس مظاہر نقوی نے جوڈیشل کونسل کے جاری کردہ دونوں شوکاز نوٹس چیلنج کردیئے

Leave a reply