باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں 5 سال سے لاپتا شہری کی عدم بازیابی کے کیس کی سماعت ہوئی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتہ شہری عمران کی جبری گمشدگی کے ذمے داروں کا تعین کرنیکا حکم دے دیا،
لاپتا شہری عمران کی والدہ کی درخواست پرچیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سماعت کی،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت مائرہ ساجد کیس کے تناظر میں احکامات جاری کرے گی،
وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر، ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ عدالت میں پیش ہوئے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ لاپتا افراد کا کیس 2015 کاہے،ہم نے پتا لگایا ہے کسی سیکیورٹی ادارے کے پاس نہیں، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کہیں ایسا کوئی مواد ہے جس سے پتا چل سکے کہ یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے؟
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ اس حوالےسے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے قائم کمیشن کی رپورٹ موجود ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل اس وقت کےآئی جی اسلام آباد،ایس ایچ اوو دیگر کاپتا لگائیں،
چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 21 مارچ 2019کو کمیشن میں آپ نےدرخواست دی، چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ 2015 کے آئی جی،ایس ایچ او اور دیگر افسران کی نشاندہی کریں،جو بھی آئی جی 2015 میں تھا ایس ایچ او تھا سب کے نام عدالت کو بتائیں،ایڈیشنل اٹارنی جنرل یہ کورٹ اورکچھ نہیں کرےگی بلکہ مائرہ ساجد کیس کےمطابق فیصلہ دے گی،
عدالت نے وکیل درخواست گزار کو ہدایت کی کہ مائرہ ساجد کیس کے کیا اثرات ہونگے،ان کی بھی نشاندہی کریں،








