ہم میں سے اکثر کے پاس شادی کے لیے maximum پانچ آپشن ہوتے ہیں۔ اماں کی طرف سے خالہ یا ماموں کی بیٹی یا بیٹا۔ کہ بیٹا ان میں سے ایک چن لو یا بچپن میں ہی سوچ لیا جاتا۔
اگر ابا کی سائیڈ پر بات کریں تو باقی تین آپشن چچا تایا اور پھوپھی کی بیٹی یا بیٹا کی آپشن آتی ہے۔
ہم اور ہمارے والدین بچپن سے ان پانچ آپشنز میں اپنا ذہن سیٹ کرتے ہیں کبھی ہمارا بھی ہوجاتا اور نا بھی ہو تو بچوں کی رائے کی کم ہی پرواہ کی جاتی بنا معیار دیکھے۔ اور مرضی پوچھے رشتہ کر دیا جاتا ہے۔ کہ اپنا ہے مار کے بھی پھینکے گا تو چھاؤں میں پھینکے گا۔ ایسا کچھ نہیں ہوتا اکثر اپنے ہی مار کر الٹا لٹکا دیتے ہیں وہ بھی دھوپ میں۔ چھاؤں میں مار کر پھینکنے والی بات پرانی ہوئی اب۔
اکثریت میں آج کل قریبی رشتے داروں میں بغض انا نفرت حسد پایا جاتا۔ کئی والدین جانتے ہوتے رشتہ داروں کو اور رشتہ نہیں کرنا چاہ رہے ہوتے مگر بچے ضد کر لیتے۔ میرے پائیو تے پینو باز آجاؤ ہجے وی ٹیم جے۔ یقین کرو بڑیاں کڑیاں تے بڑے منڈے۔ اک توں اک ودھ کے سوہنا جوڑ اللہ بنائے گا ان شاءاللہ۔ خود کو کسی شخص کا غلام نہ کرو۔ اور کزن کا تو بلکل بھی نہیں۔ پیار وی دوجی واری ہو جائے دا چھڈ دیو کزن دی جان۔
مگر شادی کے بعد وہی پچھلی نسل کی چپقلش کے طعنے نیو بیاہتا بچے سنتے ہیں۔ انکے لیے شادی خوشی نہیں والدین کی ماضی کی لڑائیوں و رنجشوں کی تلافی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ لڑکی کو عموما یہ طعنہ دیا جاتا ہم جانتے ہیں تمہاری ماں کیسی تھی تمہارا باپ کیسا تھا۔ وہ اپنے آپ میں ہی مر جاتی ہے کہ انہی والدین نے اسکی مرضی کے خلاف رشتہ کیا اور یہ لوگ کیا صلہ دے رہے۔ وہ والدین کو بھی کچھ نہیں بتاتی۔ بتا دے تو کہیں طلاق واقع ہوجاتی اور سارا خاندان ہی بکھر جاتا پرانے رشتے بھی تا مرگ ختم کر دیے جاتے۔ نہ بتائے تو والدین کی عزت کی خاطر نمانی اپنا آپ مار کے خود گھٹ گھٹ کر مرتی رہتی۔ اور سب اچھا ہے اپنے گھر بتاتی۔
دوسری بڑی اہم بات کہ شادی کے بعد میاں بیوی میں وہ مٹھاس والا رشتہ کم ہی جڑ پاتا ہے۔ جو ایک مکمل اجنبی فرد سے نکاح ہونے پر بنتا ہے۔ کہ چند سال تو دونوں کا چاء (خوشی) ہی نہیں ختم ہوتی۔ جھجھک رکھ رکھاؤ اور ایک دوسرے کو سمجھنے تک دونوں ایڈجسٹ ہو چکے ہوتے۔
ہم پاکستانی اور خصوصا پنجاب سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے بچوں کی شادیوں میں پہلی ترجیح کزن کو دیتے ہیں۔ لندن میں مستقل مقیم پاکستانی بھی یہی غلطی دہرا رہے ہیں۔ اور وہاں مستقل مقیم پاکستانی کمیونٹی میں سپیشل بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اگر کزن میں کوئی جوڑ بس عمر کی وجہ سے نہ ہو تو پھر اپنی ذات برادری میں یہاں کر لیتے ہیں۔
میری تعلیم اور شعبہ خصوصی بچوں و افراد سے متعلق ہے۔ معذوری کی جہاں اور بہت سی وجوہات ہیں وہاں ایک بڑی وجہ فرسٹ کزن بھی میرج ہے۔ میں یہ بات کسی مفروضے کے طور پر نہیں کہہ رہا بلکہ ریسرچ اس بات کو ثابت کر چکی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق معذوری کی وجہ میں کزن میرج کا رول 25 سے 50 فیصد تک ہے۔ آپ اپنی فیملی یا آس پاس سپیشل بچوں کے والدین کا شادی سے پہلے رشتہ دیکھ لیں اکثریت میں کزن ہونگے۔ پاکستان میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ لوگ سپیشل ہیں۔ جو ہماری آبادی کا 8 فیصد ہیں۔
کزن میرج کے نتیجے میں معذوری واضح نہ بھی ہو کزن میرج سے ہونے والی اولاد جسمانی و ذہنی لحاظ سے ان بچوں سے بہت ذیادہ کمزور و کند ذہن ہوگی جنکے والدین کزن نہیں ہیں۔
یہ بات ریسرچ سے ثابت شدہ ہے آپ اسکا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے پاکستان میں سے کتنے سائنسدان بنے؟ آسکر ایوارڈ یافتہ پاکستانی کتنے ہیں؟ اولمپکس چیمپیئن کتنے ہیں؟ ایتھلیٹ کتنے ہیں؟ فٹ بالرز کتنے ہیں؟ کس فیلڈ میں پاکستان کے افراد دنیا کو Compete کر رہے ہیں؟
گنے جائیں تو چند ایک ہی ہونگے باقی سب ایورج ہیں۔ عقل کے پورے ہیں۔ کزن سے شادی ہوئی بچے بیوی اور والدین پالے اور ایورج سی زندگی گزار کر مر گئے۔
کہ ذہنی اسطاعت ہی اتنی ہے اس سے آگے کوئی سوچ نہیں نہ ذہانت اس بات کی اجازت دیتی کہ کوئی تخلیقی تعمیری یا منفرد کام کیا جا سکے۔ نہ ہم خود سے کچھ بہتر لوگوں میں رشتہ کرتے کہ ہماری اگلی نسل ہی بدل سکے۔ جیہو جئے اسی آپ اوہو جئے ساڈے ساک۔
میں نے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کزن میرج پر حالیہ لٹریچر پڑھا تو معلوم ہوا یورپی ممالک میں سے 29 میں فرسٹ کزن میرج غیر قانونی ہے۔ آپ شادی فرسٹ کزن سے کر ہی نہیں سکتے۔ وہ لوگ اس پر قانون بنا چکے ہیں۔ امریکہ کی بیشتر states میں کزن میرج prohibited ہے۔ سٹیٹ 24 میں میرے ایک دوست رہتے ہیں وہ کہتے یہاں بھی کزن میرج پر پابندی ہے۔
یہودی جو پوری دنیا کی معیشت کو قابو کرتے جا رہے کزن میرج ہر گز نہیں کرتے۔ شادی سے پہلے بیسوں قسم کے ٹیسٹ کرواتے ہیں کہ آنے والی نسل نا صرف جسمانی بلکہ ذہنی اعتبار سے بھی صحت مند ہو۔ اور یہاں خیر سے ذہنی صحت و ذہانت کا کوئی شعور ہی نہیں۔
آپ پاکستان میں مقیم مسیحی کمیونٹی کے شادی سسٹم کو ہی دیکھ لیں وہ سب سے پہلے اپنی ذات برادری میں کبھی بھی شادی نہیں کرتے وہ اس بات کو اوروں سے بھی پوچھتے ہیں کہ اسکی ذات کیا ہے اپنی ذات نکل آئے تو شادی نہیں کرنی۔ مثلا مٹو کی شادی مٹو اور غوری مسیح غوری برادری میں کبھی شادی نہیں کرتا۔
وہ اپنی چچا اور تایا ذاد سے بھی کبھی شادی نہیں کرتے۔ ماموں خالہ اور پھوپھی ذاد بہن سے تب کرتے ہیں جب اور کہیں کوئی آپشن مناسب نہ مل رہی ہو۔ وہ جس بھی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ بہت اچھا کرتے ہیں۔
کزن میرج حرام نہیں ہے آپ کریں مگر سب کچھ دیکھ سمجھ کر۔ بنیادی ٹیسٹ کروا کر جو ان شاءاللہ کل لکھوں گا۔ مگر خود کو صرف کزن تک ہی محدود نہ رکھیں۔
کوئی حکم یا تاکید قرآن کی کسی ایک آیت میں بھی نہیں کہ آپ صرف کزن سے ہی نکاح کریں۔ کوئی ایک بھی سند کے اعتبار سے صحیح حدیث کزن میرج کو سپورٹ نہیں کرتی کہ جیسے کچھ مذہبی پیشوائی والے خاندان ہر صورت کزن سے ہی شادی کرتے ہیں کہ ہم باہر کرتے ہی نہیں۔ ایک اور بڑی بونگی سی بات ہوتی کہ ہم غیر ذات سے لڑکی لے لیتے ہیں اپنی دیتے نہیں۔
کیوں پائی تواڈی کڑی بوہتے لعلاں آلی اے تے دوجیاں دی ایڈی وادھو اے؟ لڑکیو ایسے دوہرے معیار والے لوگوں میں کبھی بھی شادی نہ کرنا۔ ایسا کہنے والو کس اصول کے ساتھ یہ بات کرتے ہو ویسے؟ ایسا کہنا یا کرنا صرف جہالت ہے اور کچھ نہیں۔ جہاں کسی کی بہن بیٹی باہر سے لے سکتے ہو تو اپنی بہن بیٹی بھی باہر دو۔ پلیز اس جہالت سے نکالو خود کو۔ اسلام سے پہلے مذاہب میں کزن سے شادی حرام قرار دی جاتی تھی جو اللہ نے قرآن میں حکم دے کر حلال کر دی کہ کر سکتے ہیں شادی کزن سے حرام نہیں ہے۔ مگر باقی آپشنز کو حرام نہ کریں پلیز فیملی ہسٹری پہلے دیکھیں۔
میں یہاں واضح کرتا چلوں کہ فرسٹ کزن میرج سے پیدا ہونے والے بچے کو معذوری کا خطرہ اس صورت میں اور ذیادہ ہوجاتا ہے جب دونوں یا والدین میں سے کسی ایک کی فیملی میں پہلے بھی کوئی پیدائشی معذوری موجود ہو۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں سائنس سے ثابت شدہ بات ہے۔ بچے معذور پیدا نہ بھی ہوں وہ کسی قسم کی جسمانی و ذہنی کمزوری کا شکار ضرور ہونگے۔ انکی اگلی نسل مزید کمزور ہوگی۔ اور تیسری سے چوتھی پیڑھی میں بچے معذور ہوجائیں گے۔ عین ممکن ہے سب بچوں میں ایک ہی معذوری ہو۔ کوئی سپیشل ایجوکیشن سکول وزٹ تو کریں آپ کو پتا چلے میں کیا کہہ رہا ہوں۔
ہمارے سپیشل بچوں کے سکولوں میں ہم سپیشل بچوں کے اساتذہ و دیگر معاون عملہ تقریبا ہر سکول میں ہر معذوری کے دو تین اور کبھی 4 ایک ہی معذوری کا شکار بہن بھائی دیکھتے ہیں۔ انکے والدین کا سوچ کر ان سے مل کر دل دکھ سے پسیج جاتا ہے۔ کل ایک داخلہ آیا چار بہن بھائی سماعت و گویائی سے مکمل محروم ہیں۔ ان کے والدین مامے پھپھی کے بچے تھے۔ سائیکالوجسٹ آپی یا انکے والدین سے پوچھنے پر پتا چلتا ہے انکے والدین ذیادہ تر کزن ہی ہوتے ہیں انہیں یہ بتانے والا ہی کوئی نہیں ہوتا کہ آپ کزن ہیں فیملی ہسٹری میں معذوری ہے ایک بچہ سپیشل پیدا بھی ہوگیا اب آگے بچہ پیدا کرنے کا رسک نہ لیں یا کسی ماہر ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کر لیں۔
خون گروپ جسے RH فیکٹر کہا جاتا کہ ماں اور ماں کے پیٹ میں بچے کا خون گروپ مختلف ہوجانا جیسے ماں کا رو مثبت ہے اور بچے کا منفی تو یہ بھی معذوری کی ایک بڑی وجہ ہے۔
معذوری کی ایک اور بڑی وجہ پیدائش کے وقت دائی یا کسی ناتجربہ کار ڈاکٹر کی miss handling ہوتی ہے۔ آکسیجن کی کمی پیدائش کا دورانیہ لمبا ہوجانا بچہ ہاتھ سے چھوٹ کر گر جانا سر پر ذیادہ دباو آجانا وغیرہ تمام عمر کی معذوری کی وجہ بن سکتا ہے۔
شادی کے بعد حاملہ دلہن کو خاوند کی عدم توجہ یا بن نا آنا، ساس، نند، جٹھانی یا سسرال میں جائنٹ فیملی کے اندر کسی کی طرف سے بھی مسلسل پریشان کرنا اس معصوم کو ذہنی اذیت سے دوچار رکھنا اسے اچھی غذا نہ فراہم کرنا بھی پیدا ہونے والے بچے کی معذوری کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے۔
ایک حاملہ لڑکی کو اگر خوش رکھا جائے اسے مکمل غذا مہیا کی جائے تو نیا مہمان صحت مند و انشاء اللہ بنا کسی کمی و معذوری کے اس دنیا میں آئے گا۔
فیملی میں پہلے ہی پیدائشی معذوری ہونے پر لوگوں کو کزن میرج سے منع کریں انہیں کہیں وہ کسی اچھے ڈاکٹر یا قریبی سپیشل ایجوکیشن سکول میں جا کر خاتون ماہر نفسیات سے مشورہ کر لیں ان سے پوچھیں کہ آپ کے پاس کتنے بچے کزن میرج کی پیدائش ہیں۔ شاید وہ اس طرح ہی اس سے باز آجائیں۔ کزن میرج ایک دو جنریشن میں ہوگئی اب اسکی جان چھوڑ دیں آگے نسل در نسل نہ اسے چلاتے جائیں۔